متصل تھیں،جب ان دونوں کا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش ہوا تو چونکہ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲعنہ کی زمین انصاری کی زمین سے پہلے اور پانی کے رو میں واقع تھی اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جھگڑا ختم کرنے کیلئے حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲعنہ سے فرمایا :کہ تم اپنی زمین کو پانی پلاؤ اور پھر پانی کو اپنے ساتھی کے لئے چھوڑ دو،اس پر انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرکے کہا،کہ ہاں آپ زبیر بن العوام رضی اﷲعنہ کے حق میں یہ فیصلہ اسلئے کررہے ہیں کہ وہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی ناراض ہوئے۔یہاں تک کہ غصّہ وناراضگی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر ظاہر ہونے لگے۔اور چونکہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان جو فرمایا تھا وہ صرف بطور صلح کے تھا اسلئے اب آپ نے حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲعنہ کاجو اصل حق تھا صریح حکم کے مطابق دیدیا۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں مذکورہ آیت کا سبب نزول اسی طرح منقول ہے :۔
(عن عروۃ قال خاصم الزبیر رجلاً من الأنصار فی شریج من الحرۃ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسق یا زبیر ثم ارسل الماء الی جارک فقال الأنصاری یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ن کان ابن عمتک فتلون وجھہ ثم قال اسق یا زبیرثم احبس الماء حتی یرجع الی الجدر ثم ارسل الماء واستَوعَی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للزبیر حقہ فی
عروۃ نے بیان کیا کہ زبیر رضی اﷲعنہ کاایک انصاری سے مقام حرہ کے ایک نالے کے بارے میں نزاع ہوگیا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :زبیر پہلے تم اپنا باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو پانی دے دینا۔ اس پر انصاری نے کہا اس لئے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل گیا اور فرمایا زبیر!اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس
|