تو یہاں سیدنا جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ اے اﷲ کے رسول! اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا قول بھی سن لیا ہے اور ان کا رد عمل بھی دیکھ لیا ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت کے لئے ’’ملک الجبال‘‘ کو بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جو بھی حکم دیں گے وہ اسی طرح کرے گا۔ اور پھر اس کے بعد ملک الجبال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ حضرت! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو میں آپ کی اس قوم پر مکہ مکرمہ کے ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملاکر ان کو ہلاک کردوں ! تو اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں ان کی ہلاکت کو نہیں چاہتا بلکہ مجھے امید ہے کہ ان کی نسل سے کوئی موحد مسلمان پیدا ہوجائے گا۔
اصل روایت یوں ہے:
عن ابن شھاب قال حدثنی عروۃ ان عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدثتہ أنھا قالت للنبی ا ھل أتی علیک یوم کان أشد من یوم أحد ؟ قال لقد لقیت من قومک مالقیت وکان أشد ما لقیت منھم یوم العقبۃ إذ عرضت نفسی علی ابن عبد یالیل بن عبد کلال فلم یجبنی إلی ما أردت فانطلقت وأنا مہموم علی وجھی فلم أستفق إلا وأنا بقرن الثعالب فرفعت رأسی فإذا أنا بسحابۃ قد أظلتنی فنظرت فإذا فیھا جبریل
حضرت عائشہ نے ایک مرتبہ نبی کریم اسے پوچھا !کیا آپ کو اُحد کے دن سے زیادہ کبھی سختی کا سامنا کرنا پڑا۔تو فرمایا: کہ مجھے تیر ی قوم (قریش) کی طرف سے کتنی ہی تکالیف پہنچی ہیں، لیکن ان میں سے سب سے زیادہ سخت ’’یوم العقبۃ‘‘ ہے، جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یالیل پر پیش کیا، پس اس نے میری مرضی کے موافق جواب نہ دیا،پس میں وہاں سے چلا میں انتہائی غمگین تھا مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں ’’قرن الثعالب‘‘ پہنچ گیا میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل نظر آیا جو مجھے سایہ کیئے ہوا تھا پھر میں نے دیکھا تو مجھے اس
|