کہنے لگے کہ تم خالق کی صفت ید(ہاتھ ) حقیقتہ مانتے ہو اور یہ ید مخلوق میں بھی حقیقتہ پایا جاتا ہے اس سے خالق مخلوق کے مشابہ ہوگیا۔
میں نے ان میں سے ایک عالم سے کہا کہ آپکا ید ہے ؟ اس نے کہابالکل ہے تو میں نے انہیں کہا اچھا یہ بتاؤ کیا اونٹ کا بھی ید ہے ؟ کہنے لگے ہاں اونٹ کا ید ہے تو میں نے ان سے کہا کہ انصاف سے بتائیے کہ آپکے ید اور اونٹ کے ید میں کوئی مشابہت اور مماثلت ہے ؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے، تب میں نے ان سے کہا کہ جب مخلوقات کے درمیان صرف اشتراک اسم کی وجہ سے مشابہت و مما ثلت لازم نہیں آتی تو مخلوق وخالق کے درمیان کس طرح صرف اشترک اسم کی وجہ سے مشابہت لازم آئیگی۔جب کہ مخلوق وخالق کے درمیان فرق اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا فرق دو مخلوق کے درمیان ہے۔؟
اسکے بعد وہ مجھ سے کہنے لگے کہ تم اللہ تعالیٰ کو عرش کے اوپر مانتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ عالی ہے اور عرش سافل۔ تو تمہارے اس عقیدے سے لازم آتا ہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کا حامل بن جائے اور اللہ تعالیٰ محمول (العیاذ باللہ) کیونکہ ہر سافل عالی کیلئے حامل ہوتا ہے اس پر میں نے کہا یہ قانون کہ ہر سافل عالی کیلئے حامل ہوتا ہے سراسر باطل اور خلاف و اقع ہے کیونکہ ہوا کو دیکھو یہ زمین کے اوپر چل رہی ہے لیکن تم ہوا کو محمول اور زمین کو حامل نہیں کہتے اسی طرح آسمان زمین کے اوپر ہیں لیکن کوئی بھی عقلمند زمین کو حامل اور آسمان کو محمول نہیں مانتا۔
لھذا یہ قاعدہ کہ ہر سافل عالی کیلئے حامل ہوتا ہے دو مخلوق کے درمیان درست نہیں تو ایک مخلوق (عرش)اور خالق(اللہ تعالیٰ) کے درمیان کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟
آخر میں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء وصفات صرف شریعت کے بتانے سے ہی معلوم ہوسکتے ہیں لھذا یہ سب توقیفی ہیں اور اپنے مورد کے ساتھ خاص رہیں گے ان میں کسی کو کمی بیشی کا کوئی حق نہیں ہے۔
|