اول ص۱۸۶ میں ) مرجیہ خالصہ کہتے ہیں اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ منہاج السنتہ جلد ۳ ص ۷۲ میں اور حضرت نواب صاحب رحمہ اللہ بحوالہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ دلیل الطالب میں ان کا مذہب یہ بیان کرتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے معصیت ضرر نہیں دیتی۔ اور یہ مذہب خلاف صحابہ اور ائمہ سنت ہے۔ اور مرجیتہ السنتہ سے ایسے لوگ مراد ہیں جو ہوں تو اہل سنت لیکن بحسب لغت ان مسائل کی وجہ سے جو اہل سنت کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہیں ۔ ان پر ارجاء کا لفظ بولا گیا ہو جیسا کہ سابقا حضرت حسن بن محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے ذکر میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام سے گذر چکا۔
(۳) اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ آپ کی جلالت شان کے بدل قائل ہیں چنانچہ آپ اپنی مایہ ناز کتاب میزان الاعتدال کے شروع میں فرماتے ہیں ۔
’’اور اسی طرح میں اس کتاب میں ان ائمہ کا ذکر نہیں کروں گا۔ جن کی احکام شریعت (فروع) میں پیروی کی جاتی ہے کیونکہ ان کی شان اسلام میں بہت بڑی ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کی عظمت بہت ہے۔ مثلاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ ۔‘‘ (میزان جلد اول ص۳ مطبوعہ لکھنؤ)
اسی طرح حافظ ذہبی اپنی دوسری کتاب ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں آپ کے ترجمہ کے عنوان کو معزز لقب امام اعظم سے مزین کر کے آپ کا جامع اوصاف حسنہ ہونا ان الفاظ میں ارقام فرماتے ہیں ۔
کان اماما ورعا عالما عاملا متعبدا کبیر الشان لایقبل جوائز السلطان بل یتبحر ویکتب (تذکرۃ جلد۱ ص۱۵۱)
’’آپ (دین کے) پیشوا صاحب ورع‘ نہایت پرہیز گار عالم باعمل تھے (ریاضت کش) عبادت گذار تھے۔ بڑی شان والے تھے۔ بادشاہوں کے انعامات قبول نہیں کرتے تھے بلکہ تجارت کر کے اور اپنی روزی کما کر کھاتے تھے۔‘‘
سبحان اللہ‘ کیسے مختصر الفاظ میں کس خوبی سے ساری حیات طیبہ کا نقشہ سامنے
|