گئے۔
اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد آپ نے اپنے نامدار چچا شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ دہلوی مؤلف موضح القرآن سے ظاہری و باطنی تربیت حاصل کی۔ علمی اور عملی کمالات اور خاندانی فضائل کی تحصیل کے لئے اپنے بزرگ چچاؤں کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کر کے علم و فضل کی چوٹی تک پہنچے۔
آپ نہایت ذکی الطبع تھے۔ آپ کی طالب علمی کے زمانے کی ذہانت و فطانت کے قصے علماء و مدرسین کی زبانوں پر ہیں ۔ مشکل امور و علوم کو نہایت جلد سمجھ کر بات کی تہ تک پہنچ جاتے۔
آپ نے سید احمد بریلوی مرید شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ سے بیعت جہاد کی ہوئی تھی اور آپ ان کے حجاج اور مجاہدین کے قافلہ کے سردار تھے۔ مشرق سے مغرب تک شریعت کا یہ تمام رواج اور بدعت و محدثات کا قلع قمع علوم کا چرچا‘ نماز اور روزہ اور زکوٰۃ کی کثرت اور مساجد کی آبادی جو ہندوستان اور پاکستان میں نظر آرہی ہے آپ کی اور مولوی عبدالحئی[1]مرحوم کی کوشش اور اجتہاد کے طفیل ہے۔
سرزمین ہندو پاکستان میں ان دونوں بزرگواروں کی مثال جو اپنے پیر کے دو وزیروں کی طرح تھے۔ ان بارہ سو سال میں کم ملتی ہے۔ ان کے زمانہ میں اسلام کو ایک نئی رونق حاصل ہوئی اور مٹی ہوئی سنن ماثورہ آپ کی کوششوں سے دو بارہ زندہ ہوئیں ۔ خصوصا ً شاہ اسماعیل شہید کے وعظ و نصائح کی برکات اور آپ کے نصائح سے کثرت سے لوگوں کا ہدایت یافتہ ہونا۔ ایسی چیزیں ہیں کہ موافق و مخالف اس پر سب یک زبان ہیں ۔
شرک و بدعت کی جو رسوم آپ نے مٹائیں اور محدثات و کفریات جو آپ نے دنیا سے دور کئے ان کا کوئی حساب ہی نہیں ۔
اتباع سنت اور اجتناب از بدعت کا جو بیج آپ کے دادا شاہ ولی اللہ نے ان علاقوں
|