پڑھائی شروع کی۔ دسویں سال شرح ملا تک پڑھے۔ پندرہویں سال اس ملک کے رواج کے مطابق علوم متعارفہ سے فراغت پائی۔ البتہ فن حدیث جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا تھا۔ ابھی نامکمل تھا۔ آپ کی کتاب ازالتہ الخفاء کی لوح کے اندر کے صفحے پر لکھا ہے۔
’’باز اجازت عامہ روایت حدیث از مولانا محمد افضل معروف بجا جی سیالکوٹی گرفتند۔ و بریں ہم قانع نگر دیدہ در مدینہ منورہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام تشریف برد ند و تجدید اجازت از عمدہ شیوخ خود ابو طاہر بن ابراہیم الکردی المدنی نمودند۔‘‘
لیکن ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ جناب حاجی صاحب موصوف سے اجازت روایت حدیث لینے کا زمانہ کون سا ہے۔ القول الجمیل میں آپ خود فرماتے ہیں ۔
’’ جب آپ کی عمر سترہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد شیخ عبدالرحیم رحمہ اللہ بیمار ہوئے۔ شیخ صاحب اپنے زمانہ میں فضیلت علمی کے ساتھ ایک مقدس بزرگ مانے جاتے تھے۔ یعنی عالم شریعت بھی تھے۔ اور پیر طریقت بھی۔[1]
ایام بیماری میں آپ کو بیعت و ارشاد کی بھی اجازت دی اور کلمئہ یدہ کیدی بتکرار کہا۔ اس کے بعد بارہ برس یا زیادہ تک کتب دینیہ و عقلیہ کی تدریس میں لگے رہے اور مذاہب اربعہ کی کتب اور ان کی فقاہت کے اصول اور ان حادیث کو جو ان کی دستاویز ہیں ملاحظہ کرنے کے بعد نور غیبی کی مدد سے آپ کے دل کا قرار فقہائے محدثین کی روش پر ہوا۔ چنانچہ خود جناب شاہ صاحب اپنے ایک رسالہ الخبرء اللطیف نام میں ارقام فرماتے ہیں ۔
|