کے دسترخوان سے روٹی نہیں کھائی۔[1]
اتباع سنت کا شوق آپ کی طبیعت میں مرکوز تھا۔ چنانچہ حضرت شاہ غلام علی صاحب اپنی کتاب مقامات مظہری کے صفحہ۱۶ پر آپ سے نقل کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے میری طبیعت نہایت اعتدال والی بنائی ہے اور میری طینت میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی رغبت و دیعت کی ہوئی ہے (انتہی مترجماً)
چنانچہ شیخ شیخنا نواب صاحب مرحوم اپنی کتاب ابجد العلوم میں بہ ضمن ذکر حضرت مجدد صاحب مرحوم فرماتے ہیں ۔
آپ کے متاخرین بزرگ فیض یابوں میں سے شیخ شمس الدین علوی المعروف مرزا مظہر جانجاناں ہیں ۔ جو امام محمد بن حنفیہ کی اولاد سے تھے۔ آپ بہت سے فضائل کے مالک تھے۔ فن حدیث آپ نے حاجی (محمد افضل) صاحب سیالکوٹی سے حاصل کیا۔ اور مجددی طریقہ اپنے وقت کے اکابر طریقہ مجددیہ سے۔ اتباع سنت اور قوت کشفیہ میں آپ کا پایہ بہت بلند تھا۔ آپ کے شعر بہت انوکھے اور آپ کے مکتوبات[2]بہت مفید ہیں ۔ آپ تشہد میں مسجد سے اشارہ کے قائل تھے[3]اور (نماز میں ) اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر سینے کے نیچے باندھتے تھے اور قرات فاتحہ خلف الامام کی تقویت کے قائل تھے۔
آپ کا سن وفات ہے عاش حمید امات شہیدا (۱۱۹۵)
|