اسی وجہ سے مرزا آپ کے نام کا جزو بن گیا ہوا ہے۔
حسان ہند میر غلام علی صاحب آزاد بلگرامی نے اپنی کتاب ’’سرد آزاد‘‘ میں درج کرنے کے لئے مرزا صاحب موصوف سے آپ کے حالات دریافت کئے۔ اس پر آپ نے اپنے جو حالات خود تحریر فرمائے۔ ان کا اردو ترجمہ بہ طور اختصار حسب ذیل ہے۔
’’جان جاناں نام۔ مظہر تخلص۔ پسر میرزا جان۔ جانی تخلص۔ علوی نسب ہندی مولد۔ حنفی مذہب اور نقشبندی مشرب۔ پیدائش ۱۱۱۰ھ ظاہری نشوونما اکبر آباد (آگرہ) میں ہوئی اور باطنی تربیت شاہجہان آباد (دہلی) میں حضرت سید محمد بدایونی نقشبندی سے حاصل کی۔ میرا نسب ۲۸ واسطوں سے حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔
میرے جد اعلی امیر کمال الدین نویں صدی ہجری کے شروع میں طائف کے علاقہ سے آکر ترکستان میں مقیم ہوئے اور عرصہ دراز تک ان علاقوں میں فرمانروائی کی۔ ان کی اولاد بہت سی تھی جن میں سے امیر مجنون اور امیر بابا ہیں جو ہمایوں بادشاہ کے ہندوستان کے فتح کرنے کے موقع پر اس ملک (ہند) میں وارد ہوئے۔ اس کے بعد سلاطین گورگانیہ کی خدمت اور رفاقت اس خاندان کا شعار رہا۔
میرزا جان مذکور نے جو امیر بابا سے چھٹے مرتبہ پر اور امیر کمال الدین مذکور سے بارہویں مرتبہ پر تھے عالمگیر بادشاہ کے زمانہ میں ایک عالی منصب سے ترک دنیا کی۔
بچپن سے ہی اس خاکسار کو مال و جاہ کی خواہش نہیں تھی۔ ضروریات کو حاصل کرنے کے بعد یہ فقیراز خود رفتگان کے دامن سے وابستہ ہوا۔ اس امید پر کہ دوسرے جہان کے حالات سے واقفیت حاصل کرے۔ جب سے ان کے دروازے پر قدم رکھا ہے دماغ ضعیف ہو گیا ہے اور تدبیر کے اسباب کی طاقت نہیں رہی۔ خلوت نشینی اختیار کر لی ہے۔ اور کبھی کمینوں
|