Maktaba Wahhabi

452 - 484
شیریں خط نستعلیق لکھا کرتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے اپنی ایک نئی طرز ایجاد کی جو نہایت شیریں و دلنشیں و نظر افروز تھی۔ آپ کو کتابت کا اس قدر شوق تھا کہ بھکر میں اقامت کے آخری ایام میں صحیح بخاری کی کتابت کر رہے تھے اور اس کی تصحیح و مقابلہ کر رہے تھے۔ جب آپ کی ملازمت سے علیحدگی کی اطلاع آئی تو واپسی پر بھکر کے قریب موضع نوشہرہ میں مقام کیا اور وہاں صحیح بخاری کی کتابت اور تصحیح و مقابلہ کے لئے چھ ماہ تک قیام کرنا پڑا اور چونکہ آپ کے ساتھ اور بہت سے اشخاص ہمرکاب تھے اس لئے ہزاروں روپیہ خرچ کرنا پڑا۔ صحیح بخاری کا وہ نسخہ متبرکہ اب آپ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔‘‘ وصال: اس کے بعد آپ دہلی پہنچے اور وہیں شنبہ کی شب ۲۳ ربیع الاول ۱۱۳۸؁ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ نعش مبارک کو حسب وصیت خود دار السلام بلگرام میں لایا گیا۔ جہاں آپ کو ۶ جمادی الاولی کو بوقت عصر اپنے والد بزرگوار جناب امیر احمد مرحوم کے قدموں میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ باوجود اس کے کہ تابوت کو دہلی سے بلگرام لے جانے میں چودہ دن لگے اور گرمی کا موسم تھا مگر آپ کا جسم مبارک بالکل صحیح و سالم تھا۔ کسی عضو میں کوئی بھی تغیر نہیں ہوا تھا۔ جسد مطہر تازہ میت کی طرح تابوت سے چارپائی پر رکھا گیا اور آپ کے ہم درس استاد المحققین میر طفیل محمد صاحب بلگرامی نے اپنے ہاتھوں آپ کو قبر میں اتارا۔ راقم الحروف (غلام علی آزاد بلگرامی) نے آپ کی تاریخ وفات نکالی ہے۔ ’’اولئک لھم عقبی الدار۔ جنت عدن‘‘ اور نیز آیہ کریمہ ’’للذین احسنوا لحسنی و زیادۃ‘‘ ( ۱۱۳۸؁ھ ) رحمہ اللّٰہ ملخصاً و مترجمًا۔ از ماثر الکرام دفتر اول صفحہ ۲۶۵ و صفحہ۲۶۶
Flag Counter