میں پڑھیں ۔ پھر بلاد پورب کا قصد کیا اور درمیانی کتابیں متفرق مقامات کے ماہرین فن استادوں سے پڑھیں ۔ آخر لکھنؤ میں شیخ غلام نقشبند صاحب کی خدمت میں پہنچے اور انتہائی کتابیں ان سے حاصل کر کے تکمیل تحصیل کی۔
پھر وطن مالوف کو لوٹے اور فن حدیث کی سند قطب المحدثین سید مبارک محدث بلگرامی سے حاصل کی۔ ہر فن عقلی و نقلی میں صاحب کمال تھے۔ خصوصاً علم حدیث و تفسیر و لغت و فنون‘ عربیت و تاریخ و موسیقی میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ حافظہ بہت قوی تھا۔ چنانچہ کتاب قاموس اللغتہ اول سے آخر تک بر زبان یاد تھی۔ اور احادیث نبویہ اور اسماء الرجال اور اسفار و امثال عرب اور واقعات تاریخیہ اس قدر مستحضر تھے کہ بقول حسان الہند رحمہ اللہ فکر کا محاسب ان کے شمار سے عاجز ہے۔ اور جامعیت علوم کا یہ عالم تھا کہ زمانہ کہن سال کی آنکھ نے ایسا صاحب کمال کم دیکھا ہو گا۔
جب آپ کی ملاقات سید علی معصوم مدنی مصنف ’’سلافتہ العصر‘‘ سے اورنگ آباد (دکن) میں ہوئی اور صاحب موصوف نے آپ کے کمالات علمیہ معلوم کئے تو کہا کہ میں نے ساری عمر میں سید عبدالجلیل جیسا جامع العلوم شخص نہیں دیکھا۔
شیخ غلام نقشبند آپ کے استاد ہمیشہ آپ کی تعریف و توصیف کرتے تھے۔ آپ عربی‘ فارسی‘ ترکی اور ہندی چار زبانوں کے بے مثل شاعر تھے۔ کسی زبان میں بھی ایسی کمی نہیں تھی کہ اس کے مقابلہ میں دوسری زبان کی مہارت کو فوقیت دی جا سکے۔
خوش خطی: آپ کے نواسہ حسان الہند میر غلام علی آزاد بلگرامی ماثر الکرام دفتر اول میں آپ کے حالات میں آپ کے رسم الخط کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ۔
’’آپ کی پسندیدہ مبارک عادت تھی کہ جب آپ کتابت کا ارادہ کرتے تو پہلے بسم اللہ‘ الحمدللہ اور درود شریف کاغذ پر لکھ لیتے اور اس کے بعد مطلوبہ کتابت کرتے اور اخیر عمر تک اس عمل پر قائم رہے آپ نے ایک بہت بڑا کتب خانہ منجملہ اپنے باقیات صالحات کے چھوڑا ہے۔ اس میں اکثر کتابوں کا اپنے دست خاص سے مقابلہ اور اصلاح کی ہے۔ اور بہت سی کتابیں اپنے ہاتھ سے لکھی ہیں ۔ شروع میں آپ نہایت عمدہ
|