بحث اور اس کے رجال (راویوں کے حال) کی تفتیش (وپڑتال) اس حد تک کرتے رہے کہ اس کے بعد کوئی حد نہیں ہے۔ اور اگر تم خالص حق معلوم کرنا چاہتے ہو۔ تو (امام مالک رحمہ اللہ کی) کتاب مؤطا کا مقابلہ امام محمد کی کتاب الاثار اور امام ابو یوسف کی کتاب الامالی سے کرو تو اس میں اور ان دونوں میں بعد المشرقین (مشرق و مغرب کا فاصلہ) پاؤ گے۔ کیا تم نے کہیں سنا کہ کسی محدث نے ان دونوں (کتاب الاثار اور کتاب الامالی) کی (کچھ بھی) پرواہ کی اور ان کو خیال میں رکھا۔‘‘
شاہ صاحب نے ان چند جملوں میں کوزہ میں دریا بند کر دیا ہے۔ اس کی توضیح یوں ہے کہ دنیوی ترقی و عروج کا کمال بادشاہت تک ہے۔ اور عموماً شاہی اشغال و مذاق تحصیل و خدمت علم کے رستہ میں مزاحمتیں ڈالتے ہیں ۔ لیکن مؤطا کی شہرت کا آوازہ حجرہ مسجد سے نکل کر کوکب شاہی تک جا پہنچا اور اس نے ہارون رشید و امین و مامون رشید اور ہادی و مہدی جیسے خلفاء کو بھی تحصیل و روایت حدیث کے لئے بے تاب کر دیا۔ چنانچہ ان سب نے مدینہ طیبہ کا سفر کیا اور امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے ادب تہ کر کے شاگردانہ طور پر امام مالک رحمہ اللہ سے مؤطا کی سند حاصل کی۔
طبقہ ثانیہ یعنی مجتہدین و محدثین میں مؤطا کی شہرت و قبولیت گو ظاہر میں تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ کسی علمی کتاب کی قدر اگر علماء نہ کریں تو اور کون کرے؟ لیکن مجتہدین و اکابر محدثین کے علو مرتبت کے لحاظ سے جب تک مؤطا ان کے نزدیک قابل تحصیل نہ سمجھی جاتی وہ اس کے لئے لمبے سفر ہرگز گوارا نہ کرتے اور جنہوں نے اسے قبل از درجہ اجتہاد حاصل کیا ہو بعد ازاں اس کی مسند احادیث کے ویسے ہی قائل نہ رہتے جیسے پہلے تھے۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب مصفی میں فرماتے ہیں ۔
واصل مذہب شافعی رحمہ اللّٰہ و سر مشق اجتہاد او مؤطا مالک رحمہ اللّٰہ ست در بعض جاہا تعقب کردہ است و در ترجیح روایات اختلاف نمودہ است و محمد را در مبسوط و غیر آں سرمایہ
|