اپنی بات ختم کر لی۔ تو میں نے اسے اکٹھا کر کے اپنے سینے سے لگا لیا۔ پس مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات کچھ بھی نہ بھولی۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے کثیر الحدیث اور احفظ ہونے کی یہ وجوہات بیان کی ہیں ۔
اول: یہ کہ دیگر اصحاب اہل و عیال اور کسب و تجارت والے تھے۔ وہ ہر وقت خدمت نبوی میں حاضر نہیں رہ سکتے تھے۔ اس کے برخلاف میں اصحاب صفہ کے مساکین میں سے تھا۔ جو اہل و عیال گھر گھاٹ نہ رکھنے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے صحن مسجد ہی میں رہتے تھے۔ اور ان کو کسب و تجارت کی بھی ضرورت نہ تھی۔ بلکہ لوگوں کے گھروں سے کھانا آ جاتا تھا پس میں اکثر اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہی میں رہتا تھا اور مجھے آپ سے احادیث سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا۔
دوم: یہ کہ دیگر لوگ کام کاج اور اہل و عیال کے مشاغل میں ہونے کی وجہ سے کوئی بات بھول جائیں تو بھول جائیں ۔ میرا کام تو صرف علم سیکھنا اور اسے یاد کرنا تھا اور بس۔
سوم: یہ کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ احادیث میں ایسا فیض حاصل ہوا کہ جو کچھ سیکھا وہ سینہ پر نقش ہو گیا اور پھر بھولا نہیں ۔
صحیح بخاری سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت ابوہریرہ کو احادیث نبویہ کا جو شوق تھا اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی علم تھا۔ چنانچہ انہی سے روایت ہے ۔
عن ابی ھریرۃ انہ قال یا رسول اللّٰہ من اسعد الناس بشفاعتک یوم القیمۃ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لقد ظننت یٰا باھریرۃ ان لا یسئلنی عن ھذا الحدیث احد اول منک لما رایت من حرصک علی الحدیث (صحیح بخاری)
یعنی حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کس کو حاصل ہو گی؟ تو آپ نے فرمایا۔ اے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ! مجھے ضرور خیال تھا کہ یہ
|