تمہارے ذمہ ان کا (حق) عہد اور (حق) رشتہ ہے۔‘‘
اسی طرح آپ نے فتح ایران کے متعلق بھی فرمایا تھا۔
عن حابرین سمرۃ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول لتفتحن عصابۃ من المسلمین او المومنین کنز ال کسریٰ الذی فی الابیض۔[1]
’’یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت آل کسری کا خزانہ جو (اس کے قصر) ابیض میں ہے فتح کر لے گی۔‘‘
اسی طرح قیصر روم کے خزانے فتح ہونے کی بشارت بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم و غیر ہما کتب حدیث میں مروی ہے تو کیا آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ صحابہ کرام کو ان ممالک کی فتح کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نسیاً منسیاً ہو گئے تھے۔ حاشا و کلا ۔ یا نماز کے احکام کو جس میں نجات و عاقبت کے علاوہ مسلمانوں کی تنظیم کا سبق اور اپنے امیر و سردار کی اطاعت کی عملی مشق بھی ہے۔ اور وہ دن میں پانچ بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ با جماعت گزارتے تھے کس طرح فراموش کر سکتے تھے
چونکہ ہمارا دین زیادہ تر عمل کے متعلق ہے۔ اور آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دین کی اکثر باتیں جو عمل کے متعلق ہوں وہ اپنے طریق عمل سے سمجھاتے تھے جو آج کل کی تصویری تعلیم (Pictorial Instruction)(پکٹوریل انسٹرکشن) کی نسبت نفس میں اثر کرنے اور حفظ و اتقان (پختگی) میں بدرجہا ارفع و اعلی ہے۔ اس لئے ہو نہیں سکتا۔ کہ صحابہ کرام کی مقدس جماعت ان کوائف و معمولات کو ضائع ہونے دے۔ پس جس طرح خدائے فیاض نے اپنے فضل و فیاضی سے ان کی ہمت و سعی میں برکت بخشی تھی کہ ان کے مبارک قدم فتوح بلدان کے لئے آگے ہی آگے بڑھائے جیسا کہ کہا گیا ہے:
|