بین المسلمین اوبین جمہور ھم الی التخریج علی اصل رجل من المتقدمین فکان اکثر امرھم حمل النظیر علی النظیر والرد الی اصل من الاصول دون تتبع الاحادیث والاثار۔[1]
بلکہ اہل رائے سے وہ قوم مراد ہے جو ان مسائل کے بعد جو مسلمانوں میں بالاتفاق یا ان مین اکثر کے نزدیک مسلم ہیں ۔ متقدمین میں سے کسی شخص کے (مقرر کردہ) اصول پر تخریج مسائل کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کا کام احادیث و آثار کی پڑتال کے بغیر زیادہ تر نظیر کو نظیر پر قیاس کرنا اور اصول میں کسی قاعدے کی طرف لوٹانا ہی رہا۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ سے پیشتر علامہ شہرستانی جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے حامی ہیں الملل والنحل میں حضرات احناف کے اہل رائے سے ملقب ہونے کی وجہ میں فرماتے ہیں ۔
وانما سمّوا اصحاب الرأی لان عنایتہم بتحصل وجہ من القیاس والمعنی المستنبط من الاحکام وبناء الحوادث علیہا وربما یقدمون القیاس الجلی علی احاد الاخبار وقد قال ابو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ علمنا ھذا رای وھو احسن ما قدرنا علیہ فمن قدر علی غیر ذلک فلہ مارٰای ولنا ما راٰیناہ۔[2]
ان کا نام اصحاب رای اس لئے ہوا کہ ان کی توجہ کسی قیاسی وجہ اور احکام میں کسی اجتہادی معنی کو حاصل کرنے اور پھر ان پر حوادث کو قیاس کرنے کی طرف ہے اور کبھی تو یہ بھی کرتے ہیں کہ قیاس جلی کو احادیث احاد پر مقدم کر دیتے ہیں حالانکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہمارا یہ علم (فقہ) رائے ہے اور یہ وہ بہتر سے بہتر (صورت) ہے جس پر ہم قادر ہو سکے۔ اور جو اس
|