عبارتنا شتی و حسنک واحد و کل الی ذاک الجمال یشیر
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
جس گلستاں کے تم گل تر ہو۔! خار اس بوستاں کے ہم بھی ہیں
اس شبہ کا ازالہ یوں ہے کہ بے شک بادی النظر میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرقہ بزعم خود قرآن و حدیث ہی کی پیروی کرتا ہے۔ اور انہی کو اصول شرع اور واجب الاتباع جانتا ہے۔ اور اپنے آپ کو اپنے مسلک میں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور کا متبع خیال نہیں کرتا۔ لیکن بنظر تعمق و تحقیق دیکھا جائے تو سب فرقے اہل حدیث کے سوا اس شعر کے مصداق ثابت ہوتے ہیں ؎
و کل یدعی و صلا للیلٰی و لیلی لا تقرلھم بذاکا
ہم نہیں کہتے کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی بانی فرقہ اہل قرآن کی طرح دوسرے فرقوں نے بھی سرے ہی سے حدیث نبوی کو بالکل ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اہل حدیث کی طرح کسی فرقے نے بھی حدیث نبوی کو رائے و قیاس اور اجتہاد و استنباط پر امتیازی فوقیت نہیں دی۔ ہر ایک نے باوجود کسی حدیث کے مرتبہ صحت پر پہنچ جانے کے اس کی تسلیم میں کچھ نہ کچھ چون و چرا کی ہے۔ کسی نے مخالفت قیاس کا عذر کیا اور راوی (صحابی) کو غیر فقیہہ کہہ دیا اور کسی نے معارض قرآن دے کر ٹال دیا۔ اور کسی نے خلاف عقل کہہ کر رد کر دیا۔ اور کسی نے محض اس خیال سے کہ ہمارے امام و مقتدا نے اس حدیث کو نہیں لیا اس کی تعلیم سے سر پھیر دیا۔
غرض ہر ایک نے بمقتضائے ’’چوں نبرد ندبہ حقیقت پے رہ افسانہ زدند‘‘ اس کی اتباع میں کوئی نہ کوئی روڑا اٹکا دیا۔ (جیسا کہ ہر فرقے کی کتب اصول سے ظاہر ہے) اور بموجب حدیث نبوی لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ[1] (مشکوٰۃ) اپنی ہوا اور اس خواہش کو ترک نہ کیا اور اسی وجہ سے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی
|