Maktaba Wahhabi

147 - 484
ہوں تو ہمارا بھی اس پر صاد سمجھیں ۔ تاکہ روز مرہ کی نزاع مٹ جائے۔ اور ہم ہر دو فریق خوشی سے کہیں ؎ کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہو گی یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی (۱) ہمارے بے نزاع اور بے نظیر پیشوا شیخنا و شیخ الکل شمس العلماء حضرت مولنا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے (جن کے علم و فضل اور تقوے و دیانت اور سلامت روی و بے نفسی میں کسی کو کلام نہیں ) اپنی مایہ ناز کتاب معیار الحق میں اس مسئلہ کو نہایت تفصیل سے بیان فرما دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ باقی رہی تقلید وقت لاعلمی سو یہ چار قسم ہے قسم اول واجب ہے۔ اور وہ مطلق تقلید ہے۔ کسی مجتہد کی مجتہدین اہل سنت میں سے۔ لاعلے التعیین جس کو مولانا شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے عقد الجید میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے۔ اور صحیح ہے باتفاق امت قسم دوم میاح ہے اور وہ تقلید مذہب معین کی ہے۔ بشرطیکہ مقلد اس تعیین کو امر شرعی نہ سمجھے۔ قسم ثالث حرام و بدعت ہے۔ اور وہ تقلید ہے بطور تعیین بزعم و جوب کے برخلاف قسم ثانی کے۔ قسم رابع شرک ہے۔ اور وہ ایسی تقلید ہے کہ وقت لاعلمی کے مقلد نے ایک مجتہد کی اتباع کی۔ پھر اس کو حدیث صحیح غیر منسوخ غیر معارض مخالف مذہب اس مجتہد کے معلوم ہو گئی۔ تو اب وہ مقلد بدستاویزان عذرات کے جن سے سابقا بخوبی جواب دیا گیا ہے۔ یا تو حدیث کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اور یا اس میں بدوں سبب کے تاویل و تحریف کر کے اس حدیث کو طرف قول امام کے لیجاتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ مقلد مذہب اپنے امام کا نہیں چھوڑتا‘‘ (ص۴۲‘ ۴۳) اسی طرح اسلامی دنیا میں اہل حدیث کے مسلم پیشوا اور مجتہد امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی۱۲۵۰؁ھ) نے القول المفید میں ادلہ تقلید پر سیر کن بحث کی ہے اور اپنی بے نظیر تفسیر فتح القدیر میں آیت وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل پ۱۵) کو اور آیت إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (النجم پ۲۷) کے عموم کو مخصوص البعض
Flag Counter