Maktaba Wahhabi

602 - 609
مولانا عبد الماجد دریاآبادی رحمہ اللہ(1977ء)لکھتے ہیں: ’’ادارہ دار المصنّفین کی مجلس عاملہ کے صدر مولانا ہی تھے اور میں بھی اس کا رکن شروع سے تھا،اس تقریب سے بارہا اعظم گڑھ جانے اور مولانا سے ملنے کے مواقع ملا کرتے۔مولانا کے آنے سے دار المصنّفین کےسارے احاطے میں ایک دینی گرم جوشی پھیل جاتی اوردینداری کو ایک تازگی نصیب ہو جاتی۔بعض ایسے اصحاب جو نماز کی پابندی کو غیر ضروری سمجھتے،مولانا کے ڈر سے یاان کی برکت سے بہر حال جماعت میں شریک ہونے لگتے۔اور مولانا تذکرے اپنے ملنے والوں سے عمومی مذہبی ہی قسم کے کیا کرتے۔مولانا خود حد تقشّف تک مذہبی تھے،لیکن تنگ نظری ان میں مطلق نہ تھی۔سر سید کے عقائد وخیالات کی تاویل کر لیتے اورتکفیر کی نوبت کسی کے لئے بھی حتی الامکان نہ آنے دیتے۔‘‘[1] مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اخلاق وعادات میں ایک نمایاں چیز اتباعِ سنت ہے،سنتِ رسول کی پابندی مولانا کی زندگی کے اوصاف میں سے ہے۔عملی مسائل میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ751ھ کی ’زاد المعاد‘ زیادہ پیش نظر رکھتے تھے۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’مولانا کا طرزِ فکر بالکل حکیمانہ تھا،اس وجہ سے سابقہ پڑنے سے پہلے میرا گمان ان کے بارے میں یہ تھا کہ وہ کم ازکم فروعی مسائل میں زیادہ جز رسی اورخردہ گیری سے کام نہ لیتے ہوں گے،لیکن اتباعِ سنت کے معاملہ میں وہ اپنا،اپنے شاگردوں اور دوستوں کا تو جزئیات پر بھی احتساب کرتے تھے۔بعض مرتبہ نئے تعلیم یافتہ حضرات سے اس طرح کے معاملات میں بدمزگی بھی ہو جایا کرتی تھی۔‘‘[2] اسی طرح ڈاڑھی کی شرعی حیثیت اور دین میں اس کی اہمیت کے بارے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ اور امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی مابین کچھ بحث ومباحثہ ہوا۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ راوی ہیں: ’’ ایک مرتبہ داڑھی کے مسئلہ پر بحث چھڑ گئی۔مولانا دین میں اس کی اہمیت واضح کر رہے تھے اورمیں ان کے سامنے یہ بات پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دین میں فی الواقع داڑھی کی وہ اہمیت نہیں ہے جو اس کو دی جا رہی ہے۔مولانا کچھ دیر تک تو مجھے ان احادیث کا مطلب سمجھاتے رہے جو اس بارہ میں وارِد ہیں،لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ میں داڑھی کی اہمیت کا کسی طرح قائل نہیں ہو رہا ہوں تو فرمانے لگے کہ ’’اچھا فرض کیا کہ اس کی دین میں بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے،لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے یہ چھوٹی سی چیز بہت بڑی بڑی چیزوں کا پتہ دیتی ہے۔‘‘ میں نےعرض کیا کہ وہ کیسے؟ فرمایا:’’جس طر ح راکھ کی ایک چٹکی اڑا کر ہم ہوا جیسی عظیم الشان چیزکا پتہ چلا لیتے ہیں کہ اس کا رُخ کدھر ہے اسی طرح کسی شخص کے چہرے پر داڑھی ہونے یا نہ ہونے سے ہم یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ اس کا میلان کس طرف ہے ؟ اسلام کی طرف یا غیر اسلام کی طرف۔‘‘ مولانا کے اس جواب کے بعد میں خاموش ہوگیا اور میں نے محسوس کیا کہ داڑھی چاہے دین میں بجائے خود بہت زیادہ اہمیت رکھنے والی چیز نہ ہو لیکن جہاں تک ایک مسلمان کا تعلق ہے یہ اس کے دل کے رجحانات کے لئے ایک بیرو میٹر(Barometer)کا کام ضرور دیتی ہے اور اگر یہ بات ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ دین میں اس کی بڑی اہمیت ہے اور ہونی چاہیے۔‘‘[3]
Flag Counter