Maktaba Wahhabi

591 - 609
ساتھ معلوم ہے کہ مولانا شبلی رحمہ اللہ نے ان مقامات کے تعلیمی سفر اختیار کیے اور مولانا فراہی رحمہ اللہ بھی طلبِ علم میں گھر سے نکلے تو انہی کوچوں میں پھرے،مولانا شبلی رحمہ اللہ کے تعلیمی سفر کی دو منزلیں جونپور اور غازی پور بھی ہیں۔[1] مولانا بدر الدین اصلاحی کے بیان کے مطابق مولانا فراہی رحمہ اللہ تکمیل اور تخصص کیلئے کچھ دن رام پور میں بھی رہےمولانا ارشاد حسین مجددی سے استفادہ کیا جو مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بھی استاد تھے۔[2] ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی رقم طراز ہیں: ’’مولانا فراہی کے رام پور جانے کا ذکر کسی اور نے نہیں کیا۔بدر اصلاحی نے جو کچھ کہا بغیر سند اور حوالہ کے ہے۔میں ان سے یہ نہ پوچھ سکا کہ ان کا ذریعہ علم کیا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی سے اس کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ میرے علم میں نہیں۔گئے ہوں گے دو ایک دن کے لئے۔ٹٹولتے تھے وہ اہل علم اور ماہرین فن کو۔شبلی اور فیض الحسن کے سوا کسی کا بھی،استاد کی حیثیت سے یا استفادہ کے سلسلے میں،ذکر نہیں کرتے تھے۔رام پور جانے کا کبھی ذکر نہیں آیا۔‘‘[3] مولانا شبلی رحمہ اللہ کا رام پور جانا اور مولانا ارشاد حسین رام پوری رحمہ اللہ(1311ھ)سے استفادہ کرنا معلوم ہے۔[4] مولانا ارشاد حسین رحمہ اللہ فقہ اور اصول کے استاد تھے۔فرنگی محل میں تشنگی ذوق کی تسکین کا سامان نہ پاکر جس طرح شبلی رحمہ اللہ نے رام پور کا رُخ کیا،ہو سکتا ہے کہ فراہی رحمہ اللہ نے بھی لکھنؤ کو خیر آباد کہنے کے بعد رام پور کا قصد کیا ہو۔یہ بات زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتی ہے اگر ہم نظر میں رکھیں کہ مولانا کے اس تعلیمی سفر کی آخری منزل لاہور ہے اور رام پور راستے کا ایک مقام ہے جہاں وقت کے کچھ مشہور اساتذہ جمع ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا لاہور جانے اورمولانا فیض الحسن سہارنپور ی رحمہ اللہ(1304ھ)سے پڑھنے کا ذکر تقریباً تمام راویوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔اس بارے میں مولانا کے اپنے الفاظ نص قطعی کا درجہ رکھتے ہیں،فرماتے ہیں: "ثمّ تلمّذت علی بعض مشاهير علماء الهند مثل مولانا عبد الحيّ الفرنجي محلي في لکنو والأدیب الشّهیر مولانا فیض الحسن السهارنفوري في بلده لاهور." [5] ’’پھر میں نے ہندوستان کے بعض مشہور علماء مثلاً لکھنؤ میں مولانا عبد الحئ اور لاہور میں مشہور ادیب مولانا فیض الحسن سہانپوری کی شاگردی اختیار کی۔‘‘ اس زمانے میں وہاں نیا نیا اورينٹل کالج کھلا تھا اور اپنے عہد کے مشہور ادیب مولانا فیض الحسن سہانپوری رحمہ اللہ اس میں مدرس تھے جن کا نام سن کر طلبہ دور دور سے پڑھنے آتے۔مولانا نے ان سے ذاتی طور پر علیحدہ سے عربی اَدب کی کتب پڑھیں۔[6] مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’لکھنؤ چھوڑنے کے بعد لاہورکاسفر کیا اور لاہور میں مشہور ادیب مولانا فیض الحسن سہارنپوری مرحوم کی خدمت میں حاضر
Flag Counter