Maktaba Wahhabi

38 - 411
پر کافی توجہ کی ہے۔ مولانا نے بالکل صحیح فرمایا ہے: ’’میرا یہ طرز بیان پہلے اردو تفاسیر میں نہیں آیا جس نے اختیار کیا وہ میرے بعد غالباً دیکھ کر کیا ہے۔‘‘ ترجمہ اور تفسیر کے نیچے مولانا نے بہت سے قیمتی حواشی اور نوٹس بھی لکھے ہیں جن میں قرآنی تعلیمات کی تشریح کی گئی ہے۔ آیات کے شان نزول کا بھی ذکر کیا گیا ہے، بہت سے طویل طویل حاشیوں میں مخالفینِ اسلام کے اعتراضات بھی رفع کیے گئے ہیں۔ ایک بہت بڑی خصوصیت ان حواشی کی یہ بھی ہے کہ ان میں جگہ جگہ سر سید کی ’’تفسیر القرآن‘‘ پر منظم انداز میں تفصیل سے تنقید اور ان کی ’’نیچریت‘‘ پر گرفت کی گئی ہے۔ دور حاضر کے بعض مفسرین کے ہفوات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس طرح یہ تفسیر منفرد طرز کی مالک بن گئی ہے۔ آخر میں اس تفسیر کی بابت یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض مباحث میں مولانا نے اپنے اجتہاد سے کام لیا ہے، جس سے سب کا اتفاق کرنا ضروری نہیں جیسا کہ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ثنائی ترجمہ والے قرآن مجید کے مقدمہ میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: حیات ثنائی، ص: 548) 2۔ تفسیر بالرائے: مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ خود لکھتے ہیں: ’’تفسیر کے متعلق چوتھی کتاب موسومہ ’’تفسیر بالرائے‘‘ لکھی۔ اس میں تفسیر بالرائے کے معنی بتا کر مروجہ تفاسیر و تراجم قرآن (قادیانی، چکڑالوی، بریلوی اور شیعہ وغیرہ) کی اغلاط پیش کر کے ان کی اصلاح کی گئی۔ اس کا بھی ایک حصہ چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔ باقی زیر غور ہے۔‘‘ افسوس کہ مولانا کی یہ تفسیر پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ اس کی پہلی اشاعت 1938ء
Flag Counter