Maktaba Wahhabi

219 - 411
ہے۔ قرآن مجید میں اسی طرف اشارہ ہے۔ غور فرمائیے: {اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ وَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْن} [ھود: 13، 14] یعنی کافر کہتے ہیں اس (نبی) نے قرآن بنالیا ہے تو کہہ کہ اس جیسی دس سورتیں بنالائو اور اللہ کے سوا جس جس کو چاہو مدد کے لیے بلا لو اگر سچے ہو تو ایسا ہی کرو ۔ پھر اگر یہ لوگ تمھارے اس چیلنج کا جواب نہ دیں تو تم (سر سید احمد خان اور پادری سلطان محمد خان وغیرہ) جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ اُترا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا پھر بھی تم (معترضین ) مسلمان ہوگے یا نہیں؟ غور فرمائیے! اس آیت نے سرسید کو اور اُن کے ساتھ ان سب کو جو اُن کی توجیہ کو صحیح مانیں جواب دیا۔ یعنی یہ بتایا ہے کہ کلام بے مثل بے شک علتِ الہام نہیں مگر جس وقت اس کے ساتھ دعویٰ اور چیلنج مل جائے تو بعد دعویٰ جو چیلنج ہوگا اس سے اس کلام کا الہامی ہونا ثابت ہوجا ئے گا۔ فافھم مولوی محمد علی کا قول: اس سے آگے بھی پڑھیے۔ اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کا قول ہمارے خلاف نہیں۔ آپ لکھتے ہیں: ’’قرآن شریف عربی تصانیف میں ایک بے نظیر کتاب ہے اور ہمیشہ عربی زبان کی فصاحت کا معیار مانا گیا ہے۔ لیکن اس پاک کتاب کی بڑی خصوصیت جس میں کوئی دوسری کتاب اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتی
Flag Counter