Maktaba Wahhabi

189 - 411
یعنی کثرتِ اضافات ہر حال میں مخل نہیں بلکہ جب ان کی وجہ سے ثقل پیدا ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی مناظرے میں کسی فریق کی غلطی سے بدمزگی ہو جائے تو ایک ثالث جس نے یہی مناظرہ دیکھا ہو یہ کہے گا کہ مناظرہ موجب فساد ہے، لیکن جو لوگ مناظرات سے خوب واقف ہوں گے وہ کہیں گے کہ مناظرہ میں بدمزگی لازمی نہیں عارضی ہے، جہاں ہو وہاں کا مناظرہ اچھا نہ ہوگا، عام مناظرے بُرے نہیں۔ اسی طرح جہاں کلام میں جس وجہ سے بھی ثقل پیدا ہو وہ مخل فصاحت ہے۔ جیسے آپ نے خود مثال نقل کی ہے: ’’لیس قرب قبر حرب قبر‘‘ حالانکہ قرب فصیح قبر فصیح حرب فصیح۔ مگر مل کر ثقیل ہونے سے غیر فصیح ہوگئے۔ قرآن سے جو مثال {اَلَمْ اَعْھَدْ} آپ نے پیش کی ہے، آپ ہی انصاف فرمائیں اس میں کچھ ثقل ہے؟ پادری صاحب! قرآن مجید کی پیش کردہ آیت میں تین اضافتیں ہیں: ذکر 1رحمۃ۔ 2رب۔ 3ک۔ اسی کے برابر ہم ایک مسلّمہ فصیح کتاب ’’گلستاں‘‘ میں آپ کو دکھاتے ہیں۔ غور سے سنیے! ’’بلوغ در حقیقت یک نشان دارد وبس آنکہ در رضائے خدائے عزوجل بیش ازاں باشی کہ در بندِ‘‘ 1حظِّ۔ 2نفسِ۔ 3خویش۔‘‘ (باب: 7)[1] فرمائیے! گلستاں بھی غیر فصیح ہے؟ غالباً اپنی مادری زبان (فارسی) کا تو لحاظ ضرور ہی کریں گے!! قرآن میں تعقید کا اعتراض: 5۔ پانچویں خرابی آپ نے یہ بتائی ہے: ’’تعقید کی مثال خود یہی آیت زیر تفسیر ہے یعنی {فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ
Flag Counter