Maktaba Wahhabi

71 - 411
صاحب۔ 2 پادری برکت اﷲ صاحب۔ 3 پادری عبدالحق صاحب۔ 4 مسٹر موسیٰ خاں ایڈیٹر ’’المائدہ‘‘ وغیرہ۔‘‘ (اسلام اور مسیحیت، ص: 13) بالآخر اسی پادری سلطان محمد خاں نے عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے نشہ میں مخمور ہو کر جنوری 1932ء میں ’’سلطان التفاسیر‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھنی شروع کی۔ مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ 6؍ مئی 1932ء کے اخبار ’’اہلحدیث‘‘ میں ’’سلطان التفاسیر‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’عیسائیوں نے اسلام پر آج تک متعدد حملے کیے ہیں مگر یہ حملہ ان سب حملوں سے مضر ترین ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن شریف کے مضامین پر مخالفانہ قبضہ کر کے اپنے ناظرین کو ’’عدم ضرورتِ قرآن‘‘ کا یقین دلانا ہے۔ سلطان التفاسیر کا لب ولہجہ بالکل مسلمانہ ہے مگر اُسی طرح جس طرح اُن لوگوںکا تھا جو بظاہر مومن اور بباطن منکر تھے۔ ہمارے خیال میں عیسائیوں کا ایسا کرنا عیسائیت کی حیثیت سے کچھ قبیح نہیں۔ کیونکہ یہی قاعدہ ہے پائے بوسِ سیل از پا افگند دیوارہا (سیلاب کی قدم بوسی کرنا دیواروں کو جڑ سے گرا دیتا ہے) برہان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر: اسی اہمیت کے پیشِ نظر مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی زہر آلود کتاب کا جواب شروع کیا جو ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر میں 6؍ مئی 1932ء تا 31؍ مئی 1935ء جاری رہا اور اکیاسی (81) قسطوں میں موجودہ حصہ مکمل ہوا۔ اس کے بعد پادری سلطان محمد خاں نے اپنی تفسیر لکھنی بند کر دی جس کے بعد ناچار مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یہ سلسلہ ادھورا چھوڑنا پڑا۔ برہان التفاسیر کا تعارف اور اسلوب و منہج مولانا اسعد اعظمی حفظہ اللہ نے اپنے
Flag Counter