Maktaba Wahhabi

91 - 411
نتیجہ: اس اختلافِ علماء سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ بھی قابل اظہار ہے۔ لکھتے ہیں: ’’اختلاف بالا سے ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ جو لوگ بسم اللہ کو قرآن کا جزو تسلیم نہیں کرتے وہ ایک سو تیرہ آیتیں قرآن میں سے گھٹاتے ہیں۔ اور جو لوگ بسم اللہ کو قرآن کا جزو تسلیم کرتے ہیں وہ ایک سو تیرہ آیتیں قرآن میں اضافہ کرتے ہیں۔‘‘ برہان: پادری صاحب ایک رائے دل میں بٹھا لیتے ہیں، پھر اس پر روایات کو ڈھالتے ہیں) ورنہ روایات کو روایات کے اصول سے دیکھتے تو یہ نتیجہ نہ نکالتے، البتہ ان کی مخفی غرض کو نقصان ضرور پہنچتا۔ خیر ہم تو حدیث شریف کو راہنما جانتے ہیں۔ جس میں ارشاد ہے: (( لکل امریٔ ما نوی ))[1] (ہر آدمی جو نیت کرے وہی پاوے گا) پس پادری صاحب اپنی نیت سے کام کریں ہم اپنی نیت سے کرتے جائیں گے۔ فستعلمون من لہ عاقبۃ الدار! سنیے جناب: بسم اللہ کو جو ہر سورت کے شروع میں ہے اس کو کلام الٰہی سب مانتے ہیں۔ ہاں جزوِ سورت ماننے میں اختلاف ہے بالفاظ دیگر یوں سمجھیے کہ بسم اللہ بوحی خدا قرآن کی ہر سورت کے ساتھ اتری ہے۔ مگر ایک فریق اس کو ہر سورت کا جزو کہتا ہے، ایک بغرض فصل کہتا ہے۔ یعنی بسم اللہ سے غرض اور مقصود میں اختلاف ہے نہ کہ ذات اور نزول میں۔ ہماری بات کو تو آپ محض دعوی سمجھیں گے۔ اس لیے ہم اپنے دعوے کا ثبوت آپ کو دیتے ہیں۔ مفسر تفسیر کبیر نے اپنے خیال (جزوِ فاتحہ ہونے) کا ثبوت
Flag Counter