Maktaba Wahhabi

95 - 411
جو مخفی غرض پادری صاحب دل میں قرآن کی بابت رکھتے ہیں، وہ قرآن سے پوری نہ ہوگی۔ ہاں انجیل، تورات سے بآسانی پوری ہو سکتی ہے۔ پادری صاحب کی محنت کی ہم داد دیتے ہیں کہ آپ اپنے مزعومہ خیال کی تائید خس وخاشاک سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پادری صاحب کا ایک اور اعتراض: ایک روایت مجہولہ تفسیر کبیر سے نقل کی ہے جس کو امام رازی نے ’’رُوِي‘‘ کے لفظ سے لکھا ہے۔[1] جس کا مضمون یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شروع شروع میں اپنے مکتوبات و غیرہ پر قریش کی رسم سے ’’باسمک اللھم‘‘ لکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آیت اتری: ’’بسم اللّٰه مجراھا‘‘ تو آپ نے صرف ’’بسم اللّٰه ‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ یہ آیت اتری: { اِِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}[2] [النمل: 30] اس مجہولہ روایت سے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ قابل دید و شنید ہے۔ لکھتے ہیں: ’’اس روایت کو پڑھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کی ہر سورۃ کے شروع میں نازل ہوا ہے؟ قرآن کی سب سے پہلی سورت جوالہام ہوئی ہے، سورہ علق کی پہلی پانچ آیتیں ہیں۔ اگر بسم اللہ ہر سورۃکے شروع میں الہام ہو ا تو لازم تھا کہ اس سورت کے شروع میں بھی الہام ہوتا، اور اگر اس سورت کے شروع میں الہام ہوا ہوتا تو اول تو کہیں اس کا ذکر ہوتا، اور دوئم یہ کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع میں
Flag Counter