Maktaba Wahhabi

148 - 411
تو تمام مسلمان اس پر ایمان لاتے اور اپنی اُن تمام دلائل عقلیہ کو جو اس کے بر خلاف پیش کیا کرتے ہیں بالائے طاق رکھ کر آمنا و صدقنا کہتے۔ پس مسلمانوں کا تثلیث کو نہ ماننا اس بنا پر نہیں ہے کہ اس میں صداقت نہیں کیونکہ یہ تو صداقت کا سر چشمہ ہے بلکہ محض اس بنا پر اسے نہیں مانتے کہ قرآن شریف نے اس صداقت پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا ہے۔ ‘‘ (ص: 37) برہان: پادری صاحب نے ایک کلام شرطیہ لکھا ہے کہ ’’ اگر قرآن تثلیث کا حکم دیتا تو مسلمان مان لیتے۔‘‘ اس کا جواب اول تو یہ ہے قضیہ شرطیہ میں مقدم کا امکان بھی ضروری نہیں بلکہ مقدم محال بھی ہو سکتاہے۔ صرف ملازمت پر مدار ہے نہ کہ امکان یا اطلاق پر۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کے شرطیہ کی جگہ قرآن شریف نے بھی ایک شرطیہ فرمایا ہے۔ غور سے سنیے! { قُلْ اِِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ} [الزخرف: 81] یعنی اگر خدا کا بیٹا ہوتا تومیں اُس کی پہلے عبادت کرتا ۔ کیونکہ بیٹا نوعیت میں باپ کا مثل ہوتا ہے۔ اس شرطیہ میں ’’ہوتا‘‘ کو شرط بنایا ہے نہ کہ محض امرِ قرآن۔ یعنی یوں نہیں فرمایا: ’’إن أمر اللّٰه بعبادۃ الغیر‘‘ ان دو شرطیوں میں بہت فرق ہے۔ قرآن عالم الغیب خدا کی طرف سے ہے، اُس کے علم میں تھا کہ پادری پال صاحب اس قسم کا شرطیہ لکھ کر مسلمانوں کو الزام دیں گے، اُس نے خود ایک شرطیہ بتایا جس میں محض حکم پر ولد اللہ کی عبادت متفرع نہیں کی بلکہ ثبوت پر متفرع فرمائی ہے۔ فافہم فإنہ دقیق۔
Flag Counter