اس مقابلے میں عزت پانے اور کامیابی حاصل کرنے کا طریق صبرواستقلال ہے جس سے اپنے معاصرین پر تفوق حاصل ہوسکتا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کو حاصل ہوا۔ لہ الحمد!
اعتراضات:
پادری صاحب نے ان آیات کا ترجمہ اور حل لغات کرنے کے بعد اپنے ناظرین کو مشغول رکھنے کے لیے بہت سے مشاغل پیدا کیے ہیں۔ مثلاً فرشتوں کی اقسام قرآن مجید میں کیا کیا آئی ہیں؟ مسیحی شعراء عرب نے کیا کہا ہے؟ سر سید احمد خان نے کیا فرمایا اور مرزا صاحب نے کیا بتایا وغیرہ نقل کرکے خود ہی محاکمہ کیا ہے:
’’سر سید مرحوم کا یہ کہنا کہ ان (فرشتوں ) کا کوئی وجود نہیں ہے اور مرزا صاحب قادیانی کا یہ کہنا کہ وہ کواکب کے اثرات ہیں سراسر غلط اور قرآن شریف کے منشا کے خلاف ہے۔‘‘ (ص: 119)
ہم ان اندرونی مباحث سے تفسیر ثنائی میں فارغ ہو چکے ہیں۔ ’’برہان‘‘ میں ہمارا روئے سخن بیرون اسلام کی طرف ہے، چنانچہ اس کا حق ادا کیا جاتا ہے۔
قصہ آدم:
پادری صاحب نے حضرت آدم کی پیدائش کی روایات موقوفہ اور ایک مرفوع روایت بھی نقل کی ہے جن کا مضمون یہ ہے کہ خدا نے حضرت آدم کا بت بنانے کے لیے ساری زمین سے مٹی لی تھی لیکن اس مضمون پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔ ہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ساری زمین سے مٹھی بھرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس مٹی میں زمین کے سارے حصوں کی تاثیر تھی۔ اس مفہوم کا ثبوت حدیث کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ بنی آدم مختلف اشکال اور مختلف عادات کے پید اہوئے۔
پادری صاحب نے اس عنوان پر بھی بحث کی ہے کہ حضرت آدم جس جنت
|