Maktaba Wahhabi

216 - 411
ہے: {ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ} کا۔ ’’جاء ت سکرۃ الحق بالموت‘‘ بدل ہے: {جَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ} کا۔ ‘‘ (ص: 71) جواب: اس کاجواب بھی پہلے آچکا ہے کہ بدل سدل تو آپ کے الفاظ ہیں، قرآن میں ان کا کیا دخل؟ اسی طرح اس سے آگے کے فقرے بھی ملاحظہ ہوں: زیادتی اور کمی کی مثال: ’’(3، 4) زیادتی اور کمی کی مثال: ’’النبي أولی بالمؤمنین من أنفسھم وأزواجہ أمھاتھم و ھو أب لھم‘‘۔ اس قراء ت میں اس کی زیادتی ہے اور قراء ت مشہورہ میں کمی۔ اور یہی کیفیت ہے اس آیت کی کہ ’’لہ تسع و تسعون نعجۃ أنثیٰ ۔‘‘ (ص: 72) جواب: یاد رہے قرا ٓن اس کتاب کا نام ہے جو بازار سے اس نام پر ملتی ہے اور حافظوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ کسی قراء ت شاذہ کا نام قرآن نہیں۔ آپ اگر ہمت کر سکتے ہیں تو قرآن کا نسخہ بازار سے خرید کر ایک ہی مضمون اس کی دو جگہ سے نقل کرکے اختلاف دکھائیں۔ یہی جواب آپ کے مندرجہ ذیل فقرات کا ہے جو یہ ہیں: اختلافِ معنوی کی مثال: ’’اختلاف معنوی کی مثال: {رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَا اَسْفَارِنَا} اس میں {بَاعِدْ} بصیغہ امر ہے اور ’’رب‘‘ منادی ہے۔ لیکن دوسری قراء ت میں یوں ہے کہ ’’ربنا بَاعَدَ بین اسفارنا‘‘ اس میں ’’بَاعَدَ‘‘ بصیغہ ماضی ہے اور ’’رب‘‘ اس کا فاعل ہے۔ اول جملہ انشائیہ ہے اور دوم جملہ خبریہ۔
Flag Counter