Maktaba Wahhabi

37 - 411
حاصل ہوئی۔ تفسیر شروع کرنے سے قبل مولانا نے ایک طویل اور پرمغز مقدمہ رقم فرمایا ہے جس میں صاحبِ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس کے دلائل کا بڑی وضاحت سے بیان ہے۔ تفسیر میں مولانا کا طریقہ یہ ہے کہ ایک کالم میں قرآن مجید کا متن نقل کر کے دوسرے کالم میں اس کا با محاورہ ترجمہ اور ساتھ ہی اسی کے درمیان مختصر اور مناسب تشریح بھی کرتے جاتے ہیں۔ مولانا کے ترجمے کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ربط آیات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ترجمہ نہایت سلیس، شگفتہ، رواں، مطلب خیز اور عام فہم بھی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’چونکہ میری غرض اصلی اس تحریر سے صرف یہ ہے کہ عوام اہل اسلام قرآن کریم کے مطالب سے واقف اور آگاہ ہوں، اس لیے میں نے ترجمہ کرتے ہوئے الفاظ عربیہ کی پابندی نہیں کی ہے، یعنی یہ نہیں کہ جو لفظ پیچھے ہو اس کا ترجمہ بھی پیچھے کروں بلکہ عربی محاورہ کو ہندی محاورہ میں لایا ہوں۔ اس امر کی بھی پابندی نہیں کی کہ جملہ اسمیہ کا ترجمہ اسمیہ ہی میں ادا کروں، بلکہ مطلب اس کا جس جملہ میں باعتبار محاورہ اردو کے پایا ادا کر دیا ہے۔ بعض جگہ ’’واو‘‘ کو سرِ کلام سمجھ کر اس کا ترجمہ نہیں کیا۔ غرض جو کچھ کیا وہ اسی غرض سے کیا کہ اردو میں با محاورہ کلام ہو۔‘‘ (تفسیر ثنائی: 1/ 16) یہی وجہ ہے کہ تفسیر کے علاوہ صرف ترجمہ کو بھی بڑا قبولِ عام حاصل ہوا۔ مولانا کی وفات کے بعد مولانا محمد داود صاحب راز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اسے تفسیر سے علیحدہ کر کے قلیل عرصہ میں تقریباً دس بار طبع کرا چکے ہیں۔ ترجمہ کے ساتھ مولانا نے آیات کی جو تفسیر لکھی ہے اس میں بھی ربط آیات
Flag Counter