Maktaba Wahhabi

167 - 411
{اَلَّذِیْ} کو سمجھیے۔ جس کے ساتھ وہی برتائو کیا گیا ہے جو {مَنْ} کے ساتھ یعنی {اسْتَوْقَدَ} صیغہ مفرد ہے اور {ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ} میں ’’ھِمْ‘‘ جمع ہے۔ پس یہ {اَلَّذِیْ} صورتاً مفرد ہے معناً جمع، بمعنی ’’الذین‘‘ ہے۔ اس جواب سے آپ کا دوسرا سوال بھی دفع ہو جاتا ہے جو یہ ہے: ’’{فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ مَا حَوْلَہٗ} میں جو لفظ {فَلَمَّآ} ہے اس کے جواب کا مذکور ہونا واجب ہے۔ حالانکہ اس کا جواب کہیں بھی نہیں ہے۔ علامہ زمخشری {ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ} کو اس کا جواب بتلاتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے جواب ہونے میں دو مانع ہیں: ایک لفظی اور دوسرا معنوی۔ ’’مانع لفظی یہ ہے کہ {اسْتَوْقَدَ} میں اور {حَوْلَہٗ} میں ضمیر واحد ہے اور {بِنُوْرِھِمْ} میں ضمیر جمع ہے۔ لہٰذا {ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ} ، فلما کا جواب نہیں ہوسکتا۔ مانع معنوی یہ ہے کہ مستوقد نارا یعنی آگ سلگانے والے کا کوئی قصور نہیں۔ قصور اگر ہے تو منافق کا ہے۔ پس اس کی آگ کیوں بجھائی جاتی ہے؟‘‘ (ص: 59) جواب: لفظی ؔمانع کا جواب یہ ہے کہ ’’نورھم‘‘ اسی طرح جمع ہے جیسے {وَمَا ھُمْ}۔ معنویؔ مانع کا جواب یہ ہے کہ {اسْتَوْقَدَ} کے بعد ’’غفل‘‘ فعل محذوف ہے یعنی آگ جلانے والے نے اپنے فعل کو جاری نہ رکھا۔ قرینہ اس حذف کا ہم آپ کو بتاتے ہیں مگر خطرہ ہے کہ آپ کو اس کے سمجھنے میں دقت ہوگی۔ خیر جو بھی ہو۔ سنیے! علم اصول کا مسئلہ ہے: ’’الفعل لا یدل علی التکرار‘‘ ’’کوئی فعل بھی (مثلاً اسْتَوْقَدَ) تکرار پر دلالت نہیں کرتا۔‘‘ باصطلاح فارسی یوں کہئے کہ فعل ماضی مطلق (آمد) ماضی استمراری ( می آمد)
Flag Counter