Maktaba Wahhabi

293 - 411
ہوجاتا ہے اور آناً فاناً ایک ایسی خطرناک رَو آتی ہے کہ سیلاب آجاتا ہے، جو دریاپہاڑوں سے نکلتے ہیں ان میں یہ واقعات اکثر پیش آجاتے ہیں۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن ج:اول ص:62) اہلحدیث: ہمارے ملک میں اس طرح بہنے والے پانی کو نالہؔ یا چوؔ کہتے ہیں دریا نہیں کہتے جیسے ضلع ہوشیار پور میں دیکھے جاتے ہیں۔ سید صاحب کے دوسرے مستفیض مولوی احمد الدین صاحب امرتسری اس آیت کا ترجمہ مع تشریح لکھتے ہیں: ’’جب تم فرعون کے لوگوں سے بھاگ کر سینا کے میدان کی طرف چلے جارہے تھے تو تمھیں ایسے وقت سمندر پر پہنچایا جب کہ وہ پایاب تھا اور اسے چیر کر اور صحیح راستے پر چل کر لوگ اس سے پار جاسکتے تھے سو ہمارا دوسرا انعام تم پر اس وقت ہواتھا جب ہم نے تمہارے چلنے کے ساتھ سمندر کو چیرا تھا اور سمندر کو پایاب رکھ کر اور تمہیں صحیح راستہ پر چلا کر پار کردیاتھا سو ہم نے تم کو بچادیا۔‘‘ (بیان للناس جلد اول ص:456) یہ مضمون کیسی صاف وحدت بتارہا ہے، گو بظاہر یہ تین اصحاب بولتے ہیں مگر وحدت مضمون کے لحاظ سے اصل ایک ہی ہے باقی دو اس کے أتباع ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ صریحہ سامنے رکھ کر کسی قسم کا شبہ نہیں رہتا کہ دریا کا پھٹنا بنی اسرائیل کے لیے معجزانہ رنگ میں ہوا تھا ۔ غور سے پڑھیے: { وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ} [البقرۃ: 50] ’’ہم نے تمھاری وجہ سے دریا کو پھاڑ کر تم کو نجات دی اور تمھارے دیکھتے
Flag Counter