Maktaba Wahhabi

255 - 411
میں ٹھیرا ئے گئے تھے وہ زمین پر تھی یا آسمان پر؟ تفسیروں سے مختلف اقوال نقل کرکے ناظرین کو مشغول رکھا ہے۔ سب سے اخیرمیں اپنے مطلب کی جو بات کہی ہے وہ ہمارے خیال میں قابل ذکر ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ مسلمان علماء کے بیانات کو آپ نے پڑھا، اور یہ بھی دیکھا کہ ان میں آدم والی جنت پرکس قدر اختلاف ہے۔ اور کس قدر متضاد خیالات ہیں، ان مختلف اور متضاد خیالات کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے صحف مطہرہ کی طرف رجوع نہیں کیا اور اپنے ہاں کی ضعیف بلکہ بے سند اور موضوع روایات پر اعتماد کیا۔ حالانکہ قرآن شریف نے بارہا تاکید کی ہے کہ جب تمھیں کسی امر میں شک ہو تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو کیونکہ ان کے پاس نور اور ہدایت ہے وہ تمھیں حق بات بتائیں گے اور ٹھیک راستہ پر چلائیں گے۔‘‘ (ص: 125) برہان: علماء کے مختلف اقوال سے آپ جلد کیوں گھبرا گئے؟ ان میں کئی ایک ایسے بھی ہیں جو آپ کے ہم زبان ہیں۔ بعض (ابوقاسم بلخی اور ابومسلم اصفہانی) کا نام تو آپ نے بھی لیا ہے، ہم بھی کچھ عرض کیے دیتے ہیں۔ مولانا نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی لکھتے ہیں: ’’قیل ھي جنۃ بأرض فلسطین ۔۔۔ وحمل الإھباط علی النقل منھا إلی أرض الھند کما في قولہ تعالی {اھْبِطُوْ مِصْرًا} لما أن خلق آدم کان في الأرض بلا خلاف، ولم یذکر في ھذہ القصۃ رفعہ إلی السمائ، ولو وقع ذلک لکان أولی بالذکر والتذکیر لما أنہ من أعظم النعم، ولأنھا لو
Flag Counter