Maktaba Wahhabi

230 - 411
میں نہیں ہے۔ البتہ بہت تلاش کے بعد ایک جملہ تجنیس زائد۔ اور تین چار جملے حسن اشتقاق کے جس کو بعض لوگ تجنیس میں داخل سمجھتے ہیں ہمیں مل گئے ہیں جو از قرار ذیل ہیں: ٭{ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ اِِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِنِ الْمَسَاقُ} [القیامۃ: 29، 30] ’’ساق‘‘ اور ’’مساق‘‘ میں میم زائد ہے۔ ٭ { فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ} [الروم: 43] ٭{ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ } [النمل: 44] ٭{ یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ} [الیوسف: 84] ٭{ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ} [الأنعام: 82] ان جملوں کے خط کشیدہ الفاظ میں حسن اشتقاق اور بقول بعض تجنیس ہے۔‘‘ (ص: 84) برہان: پادریؔ صاحب نے تو اس عبارت کو مجمل چھوڑا ہے۔ ہم اس کو مفصل بنانے کے لیے ’’بوستان‘‘ سے مثال پیش کرتے ہیں گدا را چو حاصل شود نانِ شام بخسپد چناں خوش کہ سلطانِ شام[1] اس شعر میں پہلے شام سے مراد رات ہے دوسرے شام سے مراد ملک شام ہے۔
Flag Counter