بیان کیا ہے تاکہ وہ تمام باتیں جن سے واقف ہونا ضروری ہے پڑھنے والوں کے زیر نظر رہیں۔ اب صرف دو باتیں اور بیان کر کے اس بحث کو ختم کرتا ہوں، وہ دو باتیں یہ ہیں:
٭ قرآن شریف میں جنت کا خیال کہاں سے آیا؟
٭ اور کتب مطہرہ جنت کے متعلق کیا تعلیم دیتی ہیں؟‘‘ (ص: 110)
برہان:
اس کے بعد پادری صاحب نے چند اشعار عرب کے مسیحی شاعروں کے نقل کرکے لکھا ہے:
’’قرآن شریف میں جنت کے جتنے مشہور نام آئے ہیں ۔مثلاً جنت ، عدن، نعیم، خلد، مقام صدق، یہ تمام نام اشعار بالا میں موجود ہیں۔ نہ صرف اسماء موجود ہیں بلکہ جنت کی بعض نعمتوں کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً درختوں کے سائے، انار، سبزے، تکلیف کا نہ ہونا، اور تمام خواہشوں کا بدرجہ کمال پورا ہونا، اور اس میں لغو اور گناہ کا نہ ہونا، موت اور تکلیف دہ چیز کا نہ ہونا، وغیرہ۔ صرف حور اور قصور کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن شریف اور ان اشعار میں صرف یہ فرق ہے کہ اُس میں تفصیل ہے اور ان میں اجمال۔ ‘‘ (ص: 111)
اس اقتباس میں آپ نے دبی زبان سے قرآن مجید کے بیان متعلقہ جنت کو مسیحی شاعروں سے ماخوذ بتایا ہے فرق صرف اجمال اور تفصیل کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اگر کسی سابق عقیدہ کی موافقت کرے تو محل اعتراض ہے۔ بہت خوب ! آگے چلیے۔ فرماتے ہیں:
’’صحف مطہرہ اور جنت: صحف مطہرہ میں جنت کے کئی نام آئے ہیں۔ مثلاً 1آسمان کی بادشاہت۔ 2آسمانی میراث۔ 3آسمانی
|