Maktaba Wahhabi

106 - 411
سکتے۔ وہ صرف یہ جواب دیتے ہیں کہ ان دو اسموں کی عظمت کی وجہ سے ان کو دہرا یا گیا ہے۔‘‘ (ص:18) برہان: آپ نے تفسیر بیضاوی تو یقینا سامنے رکھی ہوگی ۔ کیا اُس میں آپ کو اس کا جواب نہیں ملا؟ سنیے ہم بتاتے ہیں۔ بسم اللہ والے فقرہ کی نوعیت اور ہے ، اور الحمد کی اور۔ بسم اللہ میں بلحاظ ابتدا کرنے فعل کے {اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} لایا گیا، جس سے مراد یہ ہے کہ میرے فعل پر ابتدا ہی سے رحمانیت اور رحیمیت شامل ہو ۔ جس سے میں اس کے ختم کرنے پر قدرت پائوں۔ سورۂ فاتحہ میں {اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} کو محض بلحاظِ اعتقاد بصفات اللہ رکھا گیا۔ یعنی چونکہ الحمد میں اظہار کیا گیا ہے کہ سب تعریفات اللہ کے لیے ہیں، اُن صفات میں سے خاص چار صفات کاملہ کو بلحاظ اظہار عقیدہ بطور مثال ذکر کیا گیا یعنی رب العالمین ۔ الرحمن ۔ الرحیم ۔ مالک یوم الدین۔ پس یہ تکرار بے وجہ نہیں۔ نوٹ: آپ نے لکھاہے کہ ’’جن کے نزدیک بسم اللہ جز نہیں ان پر اعتراض نہیں۔‘‘ بہت خوب! آپ کا سابق مذہب حنفی تھا جو بسم اللہ کو جزوِ فاتحہ نہیں جانتے؟ اب بھی آپ کو اختیار ہے آپ یہی مذہب اختیار کریں۔ سورہ فاتحہ کے فضائل: حدیث شریف میں ہے: سورہ فاتحہ بڑی عظمت کی سورۃ ہے، یہ سبع مثانی ہے، یہ قرآن کا حصہ عظیم ہے۔[1] (بخاری) حدیث شریف میں آیا ہے سورہ فاتحہ جیسی سورۃ نہ تورات میں نہ زبور میں نہ
Flag Counter