Maktaba Wahhabi

350 - 411
بحث کی ہے۔ الحمدللہ کہ اس طول طویل تحریر میں ہمارے مطلب کی بھی چند باتیں کہہ گئے ہیں۔ جویہ ہیں: 1۔ ’’یہ حق ہے کہ ہمارے پاس اس زمانہ (تالیف تورات) کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے جس کے ساتھ مقابلہ کرکے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس زمانہ کے متن کے الفاظ اور موجودہ کتب میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ (سلطان التفاسیر، ص:330) 2۔ ’’کوئی محقق یہ نہیں کہہ سکتا کہ موجودہ عبرانی کتب مقدسہ حرف بحرف وہی ہیں جو ڈھائی ہزار سال پہلے رائج تھیں کیونکہ اختلافات موجود ہیں۔‘‘ (سلطان التفاسیر، ص: 331) یہ دو فقرے لکھ کر پادری صاحب مسیحیوں میں سرخرو رہنے کے لیے استثناء کرتے ہیں: ’’لیکن ان اختلافات کی بناپر کوئی محقق یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ (اختلافات) ایسے اہم ہیں کہ ان سے کتب مقدسہ کے مطالب و معانی میں عظیم فتور واقع ہوگیا ہے اور اب وہ اس لائق نہیں کہ ان پر اعتبار کیاجائے یا ان کو سند قرار دیا جائے۔‘‘ (سلطان التفاسیرص:331، 332) برہان: اہل دانش جانتے ہیں کہ کسی چیز کی نسبت یہ حکم لگانا کہ یہ اصل کے مطابق ہے، اصل کے موجود ہونے پر متفرع ہے، جب اصل موجود ہی نہیں تو کوئی کیسے مان سکتا ہے کہ اس نقل اور اصل میں فرق نہیں؟ خاص کر جب پادری صاحب کی شہادت ہے کہ ’’ظالم بادشاہ اینٹی نے 168 ؁ قبل مسیح میں حکم دیا کہ یہود کی کتب مقدسہ کو برباد کردیا جائے (امیکائی1:56)۔‘‘ (سلطان التفاسیر ص:332) پس مختصر یہ ہے کہ کتب مقدسہ کی عدم تحریف کا ثبوت آپ نے ایسا دیا ہے کہ کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں دے سکتا، یہ بات بالکل اس کے مشابہ ہے جو پنجابی نبی مرزا صاحب قادیانی نے اپنے صادق ہونے کی دلیل میں کہا تھا کہ ’’مولوی ثناء اللہ
Flag Counter