Maktaba Wahhabi

130 - 411
٭ بقرہ میں {ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ} اور اس میں {لِتُنْذِرَ} دونوں ہدایت کے معنی میں ہیں۔ غرض ان دونوں آیتوں کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی مضمون بیان کرتی ہیں۔ یہ تو بالکل بدیہی بات ہے کہ پچھلی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب اور کتاب کے نزول کی وجہ بتائی ہے۔ {لِتُنْذِرَ قَوْمًا} اس فقرہ سے صاف ثابت ہے کہ { لَا رَیْبَ} والی کتاب وہی ہے جو اس کے مخاطب (محمد رسول اللہ ) پر اتری ہے ۔ یعنی قرآن ۔ باوجود اس وضاحت کے پادری صاحب اگر سورہ بقرہ والی آیت سے بائبل ہی مراد لیتے رہیں گے تو قرآن مجید سے ایک اور جگہ پر اس کا جواب یوں ہوگا: { یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا} [البقرۃ: 26] ذلک الکتاب سے مراد: اس تحقیق کے بعد ضرورت نہیں کہ مزید کچھ لکھا جائے، لیکن ہم اپنی عادت کے مطابق آپ کا عندیہ آپ کے الفاظ میں مسلمانوں تک پہنچانے میں بخل نہیں کرتے۔ جو آپ نے لکھا ہے بعینہٖ درج ہے: ’’قرآن شریف پر تو لفظ ’’ذٰلک‘‘ کا اطلاق کسی صورت میں بھی صحیح طور پر چسپاں نہیں ہوسکتا ہے۔ اول تو اس لئے کہ قرآن شریف حاضر اور موجود تھا، اس لیے اس کے لیے لفظ ’’ھذا‘‘ لانا چاہیے تھا نہ کہ لفظ ’’ذلک‘‘۔ دوم اس لیے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو اس وقت تک قرآن شریف مکمل نہیں ہو چکا تھا۔ اس لیے اس کا مشارٌالیہ قرآن نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر مسلمان یہ کہیں کہ اس کا مشارٌإلیہ وہ چند سورتیں ہیں جو سورۂ بقرہ سے قبل مکہ میں نازل ہو چکی تھیں نہ کہ کل قرآن۔ (تفسیر کبیر: 1/ 156) ’’تو ہمارا یہ جواب ہے کہ اگر ہم آپ کی اس تاویل بعید کو صحیح تسلیم کر لیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ قرآن شریف کی وہ باقی سورتیں جو سورۂ بقرہ
Flag Counter