Maktaba Wahhabi

239 - 411
نا ظرین! شیخ سعدی اور بدرچاچ کا کلام آپ کے سامنے ہے۔ شیخ کا کلام کیسا آسان اور کیسا سلیس ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ واضح فرق ہے اساتذہ عرب اور کلام اللہ میں۔ سچ تو یہ ہے کہ بلاغتِ قرآن کی تصویر کھینچی نہیں جاسکتی۔ کیوں؟ گر مصوّر صورت آں دلربا خواہد کشید حیرتے دارم کہ نازش را چناں خواہد کشید[1] دوزخ: بلاغت پر طویل بحث سے فرصت پاکر پادری صاحب نے دوزخ وبہشت کا ذکر کیا ہے۔ دوزخ کے ذکر میں صفحہ (87) سے صفحہ (94) تک آٹھ صفحات خرچ کر دیے ہیں حالانکہ بات کچھ نہ تھی۔ کچھ وقت تو اس پر لگایا کہ دوزخ کا ذکر جن الفاظ میں قرآن شریف نے کیا ہے عرب کے مسیحی شاعروں نے بھی اسی طرح کیا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا ہونا قرآن شریف کی صداقت ہے یا بطالت؟ مسیحی شاعروں کو چھوڑیئے ہم تو یہ بھی مانتے ہیں کہ انجیل میں بھی نار، دوزخ کا ذکر ہے۔ (ملاحظہ ہو: انجیل متی باب: 5) اس سے قرآن پر کیا اعتراض ؟ ہاں دبی زبان سے چبھتا ہوا اعتراض پادری صاحب نے یہ کیا ہے: ’’قرآن شریف اور احادیث میں دوزخ کے متعلق جو بیان مذکور ہوا ہے وہ بظاہر بے حد دہشت ناک اور بے انتہا اندوہناک معلوم ہوتا ہے، اور پڑھنے والے کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن خدا اپنی صفت رحمیت کو سلب کر لیتا ہے، اور صرف و ہ خدا رہ جاتا ہے جو سراسر انتقام لینے والا ہو، اور جس کی سنگدلی کی یہ کیفیت ہو کہ اپنے بندوں کی آہ وفغاں، نالہ و بکا اور ان کے ان مصائب اور تکالیف سے جن کا ہم تصور
Flag Counter