Maktaba Wahhabi

318 - 411
یہی معنی ہیں اس مصرع کے آنچہ استاد ازل گفت ہماں میگوئم[1] مولوی محمد علی صاحب لاہوری (احمدی) لکھتے ہیں: ’’بنی اسرائیل میں کسی خاص خوبصورت گائے کی عظمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ بچھڑے کی پرستش کی طرح اس کی پرستش کا خطرہ ہو گیا تھا اس لیے خدا نے اسے ذبح کرنے کا حکم دیا۔‘‘ (ج1 ص:76) مولوی عبداللہ چکڑالوی نے لکھا ہے: ’’گائے کے ذبح کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس لیے دیا کہ جملہ انبیاء اس لیے مبعوث من اللہ ہوتے رہے ہیں کہ ہر قسم کے شرک، بت پرستی، گائے پرستی وغیرہ وغیرہ کو دور کریں۔‘‘ (ترجمۂ قرآن، پارہ اول ص:55) مختصر یہ کہ سر سید اس بقرہ کو سانڈھ کہتے ہیں۔ مولوی احمدالدین سرسید کے بالکل موافق ہیں، مولوی محمد علی لاہوری اور مولوی عبداللہ چکڑالوی دونوں اس کو گائے کہتے ہیں۔ پادری صاحب سرسید کے قول کہ ’’وہ سانڈ تھا‘‘ کی نسبت لکھتے ہیں: ’’سرسید کا یہ کہنا کہ وہ بیل پرستوں یا کافروں کے طریقہ پر بطور سانڈ کے چھوڑا ہوا تھا بے اصل ہے۔‘‘ (ص: 223) مگر ہم بذات خود اس قول کو ممکن الصحت کہتے ہیں۔ رکوع نہم: { وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْ تُمْ فِیْھَا وَ اللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْن فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم
Flag Counter