Maktaba Wahhabi

422 - 411
حنیف پر بحث: دوسری بات آپ نے یہ کہی ہے کہ حنیف در حقیقت مسیحیوں کا ایک اصطلاحی لفظ ہے، جس کا اطلاق وہ راہبوں، زاہدوں اور پادریوں پر کرتے تھے۔ چنانچہ ہذیل (شاعر) کہتا ہے نصاریٰ یساقون لاقوا حنیفا یعنی جس طرح عیسائی راہب کی ملاقات کے لیے جاتے۔ (ص:519) برہان: پادری صاحب نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ کوئی لفظ اپنے اصلی معنی میں مستعمل ہو کر کسی خاص اصطلاح میں استعمال ہونے سے اسی سے مخصوص نہیں ہوجاتا۔ اس کے متعلق کم سے کم کافیہ کی عبارت ’’فلا تضرہ الغلبۃ‘‘ کی شرح میں شارح کا کلام تو آپ کو یاد ہوگا کہ اسود اور ارقم جن معنی عام کے لیے موضوع ہیں، مروجہ معنی ان سے خاص ہیں بعینہٖ وہی نہیں۔[1] ٹھیک اسی طرح حنیف کے معنی ہیں مائل الی اللہ۔ یہ معنی اس کے نصاریٰ کی ابتدا سے پہلے کے ہیں، اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر، جو نصاریٰ سے پہلے تھے، بولا گیا۔ ناظرین کرام! اسی کی مثال ہے ’’مُسلم‘‘ جو آج کل محمدی دین کے ماننے والوں پر بولاجاتا ہے مگر اس کے اصلی معنی میں محمدیت داخل نہیں، اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام بلکہ ان سے پہلے کے صلحاء پر بھی بولاگیا ہے ۔ پس آپ نے یہ کہہ کر کہ حنیف نصاریٰ کے راہب کو کہا جاتا تھا کیا فائدہ سوچا؟ یہ غور نہ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بلکہ ان کے بعد قوم یہود پر کیوں یہ لفظ بولا گیا؟ غور سے پڑھیے! { وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ} [البینۃ: 5]
Flag Counter