Maktaba Wahhabi

325 - 411
برہان: ہر قرآن خواں کے دل میں اس تفسیر پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضرت مسیح کے حق میں تو صاف ارشاد ہے: {مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ} جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو مقتول کہنا اس آیت کے صریح خلاف ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کی غرض سے آپ لکھتے ہیں: ’’رہا یہ سوال کہ {فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا} سے کیا مراد ہے؟ اضربوہ میں ضمیر نفس کی طرف جاتی ہے ۔ کیونکہ بعض وقت نفس کی ضمیر بلحاظ معنی مذکر آجاتی ہے اور ’’بعضھا‘‘ کی ضمیر فعل قتل کی طرف جاتی ہے یعنی بعض قتل سے اس کو مار دو یا فعل قتل اس پر پورا وارد نہ ہونے دو۔ چنانچہ ضمیر کا قتل کی طرف جانا جو مصدر فعل سے مفہوم ہے، بحرالمحیط میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور یہی سچ ہے کہ حضرت مسیح پر پورا فعل قتل وارد نہیں ہوا۔ صلیب پر آپ صرف تین گھنٹے رہے اور اتنی تھوڑی دیر میں کوئی شخص صلیب کی موت سے مر نہیں سکتا۔ آپ کے ساتھ جو چور صلیب دیے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں، آپ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں یہی ’’فاضربوہ ببعضھا‘‘ ہے، اور {کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی} کہہ کر بتادیاکہ جس کو تم مردہ خیال کر بیٹھے تھے اسے خدانے یوں زندہ رکھا یا زندہ کردیا، اور یہ جو فرمایا ہے: { یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ} تو بتایا کہ مسیح جو تم کو مردہ معلوم ہوتا تھا جس طرح خدا نے زندہ کردیا، کیونکہ اللہ کے نام کو بلند کرنا اس کی زندگی کا مقصد تھا اسی طرح اگر تم بھی اعلائے کلمۃ اللہ کا کام اختیار کرو تو گو تم ایک مردہ قوم ہو اللہ تعالیٰ تمھیں زندگی عطا فرمائے گا۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن، ص:79)
Flag Counter