Maktaba Wahhabi

224 - 411
نوٹ: پادری صاحب سے امید ہے کہ بعد اس کے ہمیں اطلاع دیں گے کہ مسیحی علامہ زماں ہیں یا علامہ دہلی!![1] اس اقتباس میں پادری صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ عربی عبارات قرآن کی آیات سے بدرجہا آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ ناظرین اس دعویٰ کو دل پر نوٹ کرکے پادری صاحب کا ثبوت سنیں۔ پادری صاحب کے دلائل: اس دعوے کے ثبوت میں پادری صاحب نے آیات قرآنیہ سے کچھ مثالیں دی ہیں اور استعارہ اور تشبیہ کا ذکر کیا ہے۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ٭{ وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ} [الإسرائ: 24] ٭{ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا } [المریم: 4] ٭{ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ} [النور: 35] ٭{ وَاٰیَۃٌ لَّھُمُ الَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّھَارَ} [یٰسٓ: 37] ’’کہتے ہیں کہ ان آیتوں میں {جَنَاحَ الذُّلِّ} اور {اشْتَعَلَ الرَّاْسُ} اور {نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ} میں استعارہ ہے۔ استعارہ سے چونکہ کلام میں ایک خاص قسم کی ملاحت اور زینت حاصل ہوتی ہے اس لیے اس کو بھی بدائع میں شمارکرتے ہیں۔ استعارہ کیا ہے؟ ’’استعارہ کے لغوی معنی مانگنے کے ہیں۔جس چیز کو مانگتے ہیں اس کومستعار کہتے ہیں، اور جس کے لیے مانگتے ہیں اس کو مستعار لہ کہتے ہیں۔ اور جس سے مانگتے ہیں اس کو مستعار منہ کہتے ہیں۔ مثلاً اس مثال
Flag Counter