Maktaba Wahhabi

187 - 411
قرآن میں کثرتِ تکرار کا اعتراض: 3۔تیسری خرابی آپ نے یہ بتائی ہے: ’’کثرتِ تکرار کی مثال: { وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا} [الشمس: 7، 8] ایک ہی ضمیر کو کئی بار دُہرایا ہے۔‘‘ (ص:66) اس کا جواب صاحب ’’مطول‘‘ نے خود دیا ہے: ’’لا شک في ثقل ذلک في الأکثر، لکنہ إذا سلم من الاستکراہ ملح ولطف۔‘‘[1] (مطول) ’’اس میں شک نہیں کہ کثرتِ تکرار سے اکثر اوقات ثقل پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر کراہت پیدا نہ ہو تو بہت خوب اورکلام لطیف ہوجاتا ہے۔‘‘ آئیے! ہم آپ کو کثرت تکرار کے ہوتے ہوئے بھی کلام لطیف کی مثال بتادیں: أخي واللّٰه خیر من أخیکم إذا ما لم یجد بطل مقاما أخي واللّٰه خیر من أخیکم إذا ما لم یجد راع مساما أخي واللّٰه خیر من أخیکم إذا الخفرات أبدین الخداما[2] (أمثال المفضل الضبي مطبوعہ جوانب، ص: 39) دیکھیے پہلا مصرع مجسم تکرار ہے تاہم ساری نظم لطیف ہے۔ آپ کی خاطر ہم اُردو کی مثال بھی پیش کرتے ہیں۔ دہلی کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر مرحوم نے
Flag Counter