نہیں آسکتی کہ اپنے مخالف کو کہے میں اپنے جیسا کام کرنے سے تجھے عاجز کردوں گا حالانکہ وہ اپنے کام کا وہ وصف نہیں بتاتا جس کو مخالف جانتا ہو اور سمجھتا ہو کہ فعل واقعی اس وصف پر ہوا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ کوئی شخص اگر کسی کو کہے میں نے انگوٹھی میں ایک ایسی صنعت کی ہے تو اس جیسی نہیں کرسکتا تو اس کا کمال ثابت نہ ہوگا جب تک وہ اس کو انگوٹھی دکھاکر اپنی صنعت کی طرف اشارہ کر کے نہ دکھادے۔ کیونکہ یہ صحیح نہیں ہوسکتا کہ کسی انسان کے حق میں کہا جائے کہ وہ فلاں کام کرنے سے عاجز آگیا ہے جب تک کہ وہ اس کام کا قصد کرے اور نہ کر سکے۔ اور ایسی صورت تحدی غیر معلوم الوصف میں نہیں ہوسکتی ۔ نہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایسے امرکا ارادہ کرے جسے نہ مجمل جانتا ہو نہ مفصل۔‘‘ (ص: 194، 195)
پادری صاحب کو شاعروں کی اصطلاح معلوم ہوگی جو کہاکرتے ہیں: ’’ فلاں قصیدہ فلاں کا جواب ہے۔‘‘ اس سے اُن کی مراد نہ واقعات صحیحہ ہوتے ہیں نہ اخلاقی یامذہبی تعلیم کا مقابلہ۔ بلکہ محض اسلوب کلام میں مقابلہ ہوتا ہے۔ اس لیے جب کبھی بھی کسی نظم و نثر میں تحدی (چیلنج) کی جائے تو مخاطب کو متکلم کی مراد سمجھنے میں دقت نہیں۔
دوسرا پہلو:
پادری صاحب نے اس آیت پر ایک اور طرح سے بھی اعتراض کیا ہے وہ بھی ہماری اس تقریر سے رفع ہو گیا۔ وہ اعتراض یہ ہے:
’’اس آیت میں دوسرا عیب یہ ہے کہ یہ بات صاف طور پر ظاہر نہیں ہوتی کہ کس کی مثل کا مطالبہ ہے۔ آیا قرآن شریف کی مثل کا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کا۔ کیونکہ {مِثْلِہٖ} میں جو ضمیر ہے وہ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی طرف راجع ہو سکتی ہے۔‘‘ (ص: 66)
|