Maktaba Wahhabi

276 - 411
آنحضرت کے زمانہ میں اہل کتاب کے پاس موجود تھے، مسلمانوں کا یہ کہنا کہ آنحضرت کے زمانہ میں تورات اور انجیل اپنی اصلی حالت میں موجود نہ تھیں گویا اس آیت کی تردید کرنا اور یوں قرآن کی تصدیق کو باطل کرنا ہے۔‘‘ (ص: 147) برہان: پادر ی صاحب! دیکھیے ہم اور کسی کی نہیں کہتے مگر خود بڑی دریا دلی سے مانتے ہیں کہ زمانہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ) میں بعینہ وہی تورات تھی جو ’’یشوع‘‘ نے لکھی تھی اور بعینہ وہی انجیل تھی جو متیؔ ، مرقسؔ وغیرہ نے لکھی تھی۔ بس اب تو آپ خوش ہیں؟ مگر کیا اتنا تسلیم کرنے سے ہم فریقین میں اتفاق ہو جائے گا؟ واقعات اس کی شہادت نہیں دیتے۔ 2؍ ربیع الثانی (5؍ اگست 32ء ) کے پرچہ میں ہم اصلیت بتا چکے ہیں، آج بھی پادری صاحب کی خدمت میں واضح الفاظ پیش کرتے ہیں کہ منشائے نزاع پر غور کریں۔ سب سے پہلے آپ قرآن مجید کے الہامی الفاظ بنظر غائر دیکھیں کہ عالم الغیب نے گزشتہ اور آئندہ کے جملہ واقعات اور اعتراضات کے دفعیہ کے لیے کیسے جامع الفاظ قرآن مجید میں رکھے ہیں جو موتی کی طرح چمکتے ہیں۔ وہ الفاظ حسب ذیل ہیں: { وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ}[البقرۃ: 136] یعنی جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ اور سب نبیوں کو خدا کے ہاں سے ملا اسے ہم مانتے ہیں۔ اس آیت نے مسلمانوں کو صاف لفظوں میں حکم دیا ہے کہ ان انبیاء کرام علیہم السلام کے الہامات کو تسلیم کرو، یہ ہمارا ایمان ہے۔ آپ پر روشن ہوگا کہ مجموعہ بائبل میں کتنا
Flag Counter