Maktaba Wahhabi

199 - 411
تیسرا اعتراض: ’’یہ ہے کہ قرآن کو جمع کرتے وقت جب کوئی شخص قرآن کا کوئی حصہ لے کر آتا اور اگر وہ عدالت میں مشہور نہ ہوتا تو اس وقت تک اس حصہ کو قرآن میں شامل نہ کرتے جب تک اس شخص سے گواہی اور قسم نہ لی جاتی۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر قرآن کی بلاغت حد اعجاز تک پہنچی ہوئی ہوتی تو بلا تکلف اس کو پہچان لیتے اوراس کو قرآن میں شامل کرنے کے لیے کسی کی گواہی اور قسم کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔‘‘ (ص: 70) جواب نمبر3: قانون معدلت ہے کہ حاکم اپنے علم اور رؤیت کو فیصلے میں دخل نہ دے بلکہ شہادت کی بنا پر فیصلہ کرے۔ نیز قانونِ شہادت میں نصابِ شہادت صرف دو اشخاص کو رکھا ہے۔ با ایں ہمہ دو گواہوں سے زیادہ اہم معاملات میں سیکڑوں تک عدد شہادت پہنچتا ہے۔ یہ سب احتیاط ہے۔ کمیشن قرآن کی کارروائی احتیاط پر مبنی تھی ورنہ قرآن تو خود ممبر ان کمیشن کو بھی یاد تھا۔ فاندفع ما أورد چوتھا اعتراض: ’’یہ ہے کہ جو امور صنعت کے متعلق ہوتے ہیں ان کے کمال کے مراتب ہوتے ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر اور اس کی کوئی ایسی حد مقرر نہیں کی جاسکتی جس سے آگے بڑھنا ناممکن ہو۔ پس ہر زمانہ کے لیے لازم ہے کہ کوئی شخص کسی خاص صنعت میں اپنے ابنائے زمانہ سے بڑھ جائے اور ایسے مرتبہ پر پہنچ جائے جس تک کوئی اور شخص نہ پہنچ سکے۔ پس یہی کہا جائے گا کہ شاید محمد علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے فصیح تر تھے اور ان کے کلام
Flag Counter