Maktaba Wahhabi

237 - 411
’’میرے ممدوح کا چہر ہ ایسا روشن ہے کہ یہ دن کو طلوع کرنے والا سورج جب کبھی اس (ممدوح کے چہرے) کو ملا ہے بے حیائی کے ساتھ ملا ہے۔‘‘ یعنی سورج کا میرے ممدوح کے سامنے آنا کمال بے حیائی ہے۔ کیونکہ میرا ممدوح اس سورج سے بدرجہا روشن ہے۔ اردو شاعر نے بھی اس قسم کے استعارہ میں محبوب کے منہ کو جزء لایتجزی (غیر منقسم جزء) قرار دے کر لکھا ہے تقسیم جزء لا یتجزیٰ کی ہوگئی سہواً سخن جو ان کے دہن سے نکل گیا شاعرانہ رنگ میں ایسا استعارہ غرابت اور پسندیدگی کی انتہا کو پہنچا ہوتا ہے، یہاں تک کہ صاحب مطول بھی چٹخارے لے کر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ مگر قرآن مجید چونکہ مذہبی کتاب ہے اس لیے ایسے صریح کذب آلود استعاروں سے اگر اجتناب کرے تو اس کا فرض ہے اورپادری صاحب اس پر اعتراض کریں تو بلحاظ منکر قرآن ہونے کے ان کا حق ہے۔ کیوں؟ ہنر بچشم عداوت بزرگتر عیب است گل است سعدی ودر چشم دشمناں خارست[1] قرآن کی مثال: سچ تو یہ ہے کہ قرآن کی فصاحت علوم خادمہ قرآن کی پابندی میں قرآن کو اصل زبان میں پڑھنے سے معلوم ہوسکتی ہے بیان میں نہیں آسکتی۔ ہم اس کی مثال میں دواستادوں کے کلام کا مقابلہ دکھاتے ہیں۔ دونوں اعلی پایہ کے شاعر بلکہ استاد، دونوں کا مضمون ایک، مگر لطافت اور شیرینی میں نمایاں فرق۔ استاد بدرالدین چاچی
Flag Counter