Maktaba Wahhabi

279 - 411
برہان: تفسیروں میں یہ قول بھی ہے۔ مگر زیادہ صحیح معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کے احکام کو بگاڑ کر دنیاوی فوائد حاصل کرنے کو غلط پیرائے میں بیان نہ کرو۔ ان معنی کی تائید دوسری آیت سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے: { فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِ ھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنٰی وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا وَ اِنْ یَّاْتِھِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاْخُذُوْہُ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْہِ وَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ} [الأعراف: 169] یعنی انبیاء کے بعد کتاب کے وارث ایسے لوگ ہوئے جو دنیا کا مال حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری بخشش ہو جائے گی۔ (ایک طرف سے مال کھاکر غلط فتویٰ دیتے ہیں)اور اگر دوسری طرف سے اسی قدر ان کو پہنچ جاتا تو وہ بھی لے لیتے (پھر فریق ثانی کی طرف ہو جاتے) کیا ان سے کتاب اللہ میں وعدہ نہیں لیا گیا کہ اللہ کے حق میں سچ ہی کہا کریں اور یہ اس سبق کو پڑھ چکے ہیں اور یاد رکھیں آخرت کا گھر متقیوں کے لیے ہے۔ اس آیت میں اہل کتاب کی خیانتِ عالمانہ کا ذکر ہے۔ یعنی خدائی احکام بیان کرنے میں حق گوئی کا خیال نہیں رکھتے بلکہ ان کا بیان اپنی اغراض پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ آیت زیر بحث آیت {لاَ تَشْتَرُوْا} کی تشریح اور تفسیر ہے کہ اس سے مراد احکام الٰہیہ میں تبدیلی ہے، صحیح تعلیم بالعوض دینا منع نہیں ۔
Flag Counter