Maktaba Wahhabi

328 - 411
تنفس قائم ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہ تجویز خود اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے مفید دیکھ کر بتلائی تھی۔ اس لیے اس کے حق میں اس کا نتیجہ خیز ہونا لازم تھا۔ حاصل یہ ہے کہ وہ شخص سکتہ کی حالت سے الٰہی تجویز کے مطابق ہوش میں آگیا۔ اور قاتلوں کا کافی و کامل طور پر ایسا پتہ لگا دیا کہ جس سے کسی شخص کے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگیاکہ جسے تم چھپاتے تھے میں اسے ظاہر کرنے والاہوں۔ پھر اس شخص کی طاقت زائل ہونے لگی۔ اور وہ سچ مچ مقتول ہوگیا۔ اور خدا تعالیٰ کا فرمان {قَتَلْتُمْ} بھی اس کے حق میں صحیح ثابت ہوا۔‘‘ (تفسیر بیان للناس، ص:523) برہان: اس عبارت میں اُسی شخص کو جسے ایک ورق پہلے ’’سچ مچ مقتول‘‘ لکھا تھا یہاں مسکوت (سکتہ کی حالت میں) لکھ دیا۔ یہ نہ سمجھے کہ مسکوت (سکتہ زدہ) دراصل زندہ ہوتا ہے۔ ’’سچ مچ مقتول‘‘ زندہ نہیں ہوتا۔ غالباً فاضل مفسر مسکوت اور مقتول میں فرق نہیں کرتے۔ اگر یہ حالت ہے تو ان سے اس سوال کے جواب کی کیونکر امید ہوسکتی ہے کہ قرآن کے مفسر کے لیے صحتِ دماغ کی بھی ضرورت ہے یانہیں؟ الحاصل آپ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل نے قتل کردیا، خدانے حکم دیا کہ حضرت ممدوح کو اونچی جگہ لٹاکر ان کے ہاتھ اور پائوں ان کے سینے اور چوتڑوں پر مارو جس کی تصویر یوں ہوگی کہ بقول مولوی احمد دین صاحب امرتسری کسی اونچے چبوترے پر حضرت ہارون علیہ السلام لٹائے گئے ہوں گے۔ اور دو آدمی ان کے ہاتھوں کو سینے اور دوشخص ان کے پیروں کو چوتڑوں پر مارتے ہوں گے۔ ایسا کرنے سے ان کو سکتہ سے ہوش آگیا ہوگا۔ تو انھوں نے بتادیا ہوگا کہ فلاں شخص نے مجھ کو
Flag Counter