Maktaba Wahhabi

138 - 411
رحمت ہے اور ظالموں کو سوائے نقصان کے کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘ آمنا و صدقنا، فاکتبنا مع الشاھدین۔ آپ کی پیش کردہ باقی دو حدیثوں کا جواب بھی اسی میں آگیا۔ لہ الحمد۔ پادری صاحب کی دوسری بات: پادری صاحب کی دوسری بات بھی سننے کے قابل ہے۔ فرماتے ہیں: ’’دوسری غورطلب بات یہ ہے کہ چونکہ قرآن شریف کی بہت سی آیتیں متشابہات اور محکمات، مجملات و مفصلات میں منقسم ہیں اور بہت سی آیتیں صریحاً جبر پر دلالت کرتی ہیں اور بعض قدر پر تو تاوقتیکہ دلائل عقلی نہ ہوں متشابہات و محکمات میں مجملات و مفصلات میں تمیز نہیں ہوسکتی اور نہ ہی جبر وقدر میں تاویل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اگر ہادی ہو سکتی ہیں تو دلائل عقلی ہوسکتی ہیں نہ کہ قرآن شریف۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت علی نے ابن عباس کو خوارج کے پاس بھیجا تو ابن عباس کو یہ حکم دیا کہ ’’ لا تحتج علیھم بالقرآن فإنہ خصم ذو وجھین‘‘ یعنی قرآن کے رو سے ان کے ساتھ حجت نہ کرنا کیونکہ قرآن دو رخہ دلیل ہے۔ (تفسیر کبیر: 1/ 162) اگر در حقیقت قرآن شریف ہدایت ہوتا تو حضرت علی ہر گز حضرت ابن عباس کو قرآن سے دلیل پیش کرنے سے منع نہ فرماتے۔‘‘(ص:32) برہان: گمان ہوتا ہے کہ پادری صاحب قرآن مجید پر اعتراض کرتے ہوئے ستیارتھ پرکاش مصنفہ سوامی دیانند کو سامنے رکھ لیتے ہیں۔ جس طرح سوامی مذکور قرآن اور بائبل پر بے دردی سے اعتراض کرتے جاتے تھے، چاہے عندالعقلاء خود اُن کے دماغ کی کیفیت کا اظہار ہوتا جائے مگر وہ نمبر پر نمبر بڑھاتے جاتے تھے۔ اسی طرح آپ
Flag Counter