اپنے مہاجر بزرگوں کو آسناتے۔ کبھی رات غار ہی میں بسر کرتے۔ جب مکہ کے لڑکے صبح صادق کے وقت اٹھتے تو یہ انہی کے ساتھ صبح کو مکہ ہی میں موجود ہوتے۔ ایسے وقت میں جب کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے جان کا خطرہ تھا ان نوجوانوں کے یہ شجاعانہ کارنامے تا قیامت اسلام کے آڑے وقتوں میں کام آنے والے نوجوانوں کے لیے مثال ہیں۔
خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ کھڑا ہوا تو باغیوں نے قصر خلافت کو گھیر لیا۔ سارا مدینۃ النبی بلوائیوں کے رحم وکرم پر تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نوجوان بڑے بیٹے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی حفاظت پر مامور کیا۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کمال شجاعت سے باغیوں کو اندر داخل ہونے سے روکا۔ دشمنوں کے وار سے سارا جسم لہو لہان ہوگیا۔ دشمن دیوار پھلانگ کر گھر میں جا گھسے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوش غضب میں بیٹے کو طمانچہ مارا کہ تم نے کس طرح خلیفہ کی حفاظت کی؟
۷۔ گھر والوں کو پاک بازی کو اپنانے کی تربیت دینا:
پاکدامنی مسلمانوں کی امتیازی اور اخلاقی خوبی ہے۔ غیر مسلم اقوام میں اس خوبی کے فقدان کے سبب ان کا گھریلو نظام تتر بتر ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے خاندانی نظام میں جو کچھ نظم وضبط ہے اس میں اس صفت کا زبردست ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بعض اخلاقی اوصاف کی قرآن مجید میں تعریف فرمائی ہے جن میں سے ایک پاکدامنی بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ﴾ (المعارج: ۲۹)
’’اور جو اپنی شرم کی جگہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم کی پاکدامنی کی تعریف اس طرح فرمائی ہے:
﴿ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا﴾ (التحریم: ۱۲)
’’اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔‘‘
|